تشریح:-مجمل اس کلام کو کہتے ہیں کہ جس میں بہت سارے معانی جمع ہوں اور اس کی وجہ سے مراد ایسی مشتبہ ہوجائے کہ نہ صیغہ سے معلوم ہوسکے ،نہ طلب وتامل کے ذریعہ ،بلکہ جب تک شارع یا مُجْمِل کی طرف سے بیان نہ آجائے ، اس کی مراد معلوم نہیں ہوسکتی ،مجمل کی مثال اس آدمی کی طرح ہے جو اپنی ہیئت اور لباس بدل کر اور وطن چھوڑ کر لوگوں میں گھل مل گیا ہو،تو لوگوں سے پوچھے بغیر اس کا پتہ نہیں مل سکتا ،ایسے ہی مجمل میں مجمل کی طرف سے جب تک بیان نہیں آئے گااسکی مراد نہیں معلوم ہوسکتی ہے ،__ اس کی مثال جیسے حرم الربو __ ربو کے معنی زیادتی مگر کونسی زیادتی ؟کیونکہ ہر زیادتی حرام نہیں ہے ،ورنہ بیع کا دروازہ ہی بند ہوجائے گا ،پس ربو اپنے مرادی معنی کے لحاظ سے مجمل ہے،اور حضورﷺ نے چھ چیزوں سے اس کی مراد واضح کردی گیہوں ،جو،کھجور ،نمک ،سونا،چاندی ،ان چھ چیزوں میں ہم جنس کے ساتھ بیع ہوتو برابری ہواور قبضہ بھی اسی وقت ہو ،اگر کسی جانب میں زیادتی ہوئی تو یہ ربو ہے ، توربو مجمل تھا ،آپ ﷺکی طرف سے بیان سے اس کی مراد معلوم ہوگئی ،پھر مجتہدین نے تامل اور غوروفکر کرکے ربو کی علت نکالی ،احناف کے نزدیک قدر مع الجنس علت ہے ،شوافع کے نزدیک طعم وثمنیت اور مالکیہ کے نزدیک ادخار واقتیات __کیونکہ چھ چیزوں میں ربو کا حکم مؤول ہے اور چھ چیزوں کے علاوہ میں مشکل ہے،اور مشکل میں چونکہ غوروفکر کی ضرورت پڑتی ہے لہٰذا علماء نے غوروفکر سے مذکورہ بالا علتیں نکالی ۔
دوسری مثال جیسے لفظ ِصلوۃ ،زکوۃ،صو م وغیرہ بہت سارے معانی میں استعمال ہوتے ہیں ،شریعت میں ان الفاظ کے مرادی معنی کیا ہیں؟ یہ معلوم نہیں ہے، تو یہ الفاظ مجمل ہوگئے ،آپ ﷺ کے بیان سے صلوۃ ،زکوۃ ،صوم کے مرادی معنی یعنی مخصوص عبادت ہونامعلوم ہوگیا۔
مجمل کا حکم یہ ہے کہ مجمِل کی طرف سے بیان آنے سے پہلے یہ اعتقاد رکھنا واجب ہے کہ اس کی جو بھی مراد ہے وہ حق ہے۔
وَضِدُّ الْمُحْکَمِ اَلْمُتَشَابِہُ وَھُوَ مَالَا طَرِیْقَ لِدَرْکِہِ اَصْلًا حَتّٰی سَقَطَ طَلَبُہُ وَحُکْمُہُ، اَلتَّوَقُّفُ فِیْہِ اَبَدًا عَلٰی اِعْتِقَادِ حَقِّیَّۃِ الْمُرَادِ بِہِ
ترجمہ:-اورمحکم کی ضد متشابہ ہے اور متشابہ وہ کلام ہے جس کو جاننے کا بالکل کوئی راستہ نہ ہو، حتی کہ اس کی طلب ساقط ہوجائے ،اور متشابہ کا حکم اس میں توقف کرنا ہے ہمیشہ اس کی مراد کے حق ہونے کے اعتقاد کے ساتھ۔
------------------------------
تشریح:-محکم کی ضد متشابہ ہے ،محکم ظہور اور قوت میں ایسے اعلی درجہ کا ہوتاہے کہ اس میں نسخ کا بھی احتمال نہیں ہوتا ہے، تو اس کی ضد متشابہ بھی خفا میں ایسے اعلی درجہ کا ہوتا ہے کہ اس کے خفاء کو دور کرکے اس کی مراد معلوم ہونے کا