دوسری جِریان لفظ کی تقسیم ہے جس کی دو قسمیں صریح اور کنایہ ہیں،جب دو الگ الگ تقسیم ہے تو صریح وکنایہ کا حقیقت ومجاز کے ساتھ جمع ہونے میں کوئی اشکال نہیں ہے،آگے حقیقت ومجاز کی تعریف کررہے ہیں۔
فَالْحَقِیْقَۃُ اِسْمٌ لِکُلِّ لَفْظٍ اُرِیْدَ بِہِ مَاوُضِعَ لَہُ وَالْمَجَازُ اِسْمٌ لِکُلِّ لَفْظٍ اُرِیْدَ بِہِ غَیْرُ مَاوُضِعَ لَہُ لِاِتِّصَالٍ بَیْنَھُمَا مَعْنًی کَمَا فِی تَسْمِیَۃِ الشُّجَاعِ اَسَدًا وَالْبَلِیْدِ حِمَارًا اَوْذَاتًاکَمَا فِی تَسْمِیَۃِ الْمَطَرِ سَمَاءً وَالْاِتِّصَالُ سَبَبًا مِنْ ھٰذَا الْقَبِیْلِ وَھُوَ نَوْعَانِ
ترجمہ:-پس حقیقت نام ہے ہر اس لفظ کا جس سے مراد لیا جائے وہ معنی جس کے لئے لفظ وضع کیا گیا ہے ،اور مجاز نام ہے ہر اس لفظ کا جس سے مراد لیا جائے اس معنی کے علاوہ جس کے لئے وہ لفظ وضع کیا گیا ہے، ان دونوں کے درمیان اتصال کی وجہ سے ،معنی ً اتصال جیسے کہ بہادر کا نام شیر اور بیوقوف کا نام گدھا رکھنے میں یا اتصال ذاتی ہو جیسے بارش کا نام بادل رکھنے ہیں ،اور اتصال سببی اسی قبیل سے ہے، اور وہ دو قسم پر ہے۔
------------------------------
تشریح:-لفظ اگر اپنے معنی موضوع لہ میں استعمال ہوتو اس کو حقیقت کہتے ہیں اور لفظ جس معنی کے لئے وضع کیا گیا ہے اس کو چھوڑ کر دوسرے معنی میں استعمال ہوتو اس کو مجاز کہتے ہیں ،بشرطیکہ دونوں معنی کے درمیان اتصال ہو یعنی کوئی مناسبت اور جوڑ ہو ،اور اسی کوعلاقہ بھی کہتے ہیں۔
بہرحا ل معنی حقیقی اور معنی مجازی میں اتصال ضروری ہے ،اور اتصال کی دو قسمیں ہیں ۔(۱)اتصال معنوی (۲)اتصال صوری، معنی حقیقی اور معنی مجازی کے درمیان اگر تشبیہ کا علاقہ ہے تو اس کو استعارہ کہتے ہیںاور اگر تشبیہ کے علاوہ کوئی علاقہ ہوتو اس کو مجاز ِمرسل کہتے ہیں ،اور اس کے چوبیس علاقے ہیں اورایک علاقہ استعارہ کا ہے،کل پچیس ہوئے ، مصنف ؒ نے دو لفظ کہہ کر تمام علاقوں کو سمیٹ لیا، اتصال صوری (ذاتی ) کہہ کر مجازِ مرسل کے تمام علاقے مراد لے لئے ،اور اتصال معنوی کہہ کر علاقہ تشبیہ کو مراد لے لیا ۔
اتصال معنوی سے مراد یہ ہے کہ معنی حقیقی اور معنی مجازی دونوں کسی ایسے معنی میں شریک ہوں جو معنی مشبہ بہ (معنی حقیقی )کے ساتھ خاص ہو اور وہ معنی مشبہ بہ میں مشہور بھی ہو ،جیسے بہادر کو شیر کہنا یعنی اسدً بولکرً رجل شجاع ًمراد لینا ، یہاں دونوں وصف شجاعت میں شریک ہیں ،اور یہ وصف مشبہ بہ یعنی شیر کے ساتھ خاص بھی ہے اور شیر میں بہادری کے معنی عوام میں مشہور بھی ہے۔
دوسری مثال کندذھن آدمی کو گدھا کہنا یعنی حمار بولکر بے وقوف مراد لینا ،یہاںدونوں میں وصف جامع حماقت