بننے کی صلاحیت نہیں ہے ،کیونکہ بکارت کی تاثیر کسی اور جگہ ظاہر نہیں ہوئی ہے ،بلکہ جووصف ِولایت کی صلاحیت رکھتا ہے وہ صِغَر ہے،کیونکہ وصف صغر کا اثر دوسری جگہ یعنی ولایت ِمال میں ظاہر ہوچکا ہے، لہٰذا وصف صِغَر حکم کی علت ہوگا، غرض معترض نے معلل کے وصف کو صالح للحکم تسلیم نہیں کیا۔
تیسری قسم: یہ ہے کہ معترض وصف کو بھی تسلیم کرے، اور اس میں حکم کی صلاحیت کو بھی تسلیم کرے البتہ حکم کا انکار کردے ، اور کہے کہ حکم یہ نہیں جو آپ نے ثابت کیا، بلکہ دوسرا ہے__ جیسے امام شافعیؒ نے فرمایا کہ وضو میں چہرہ اور ہاتھ کو تین مرتبہ دھونا مسنون ہے ،کیونکہ چہرہ کا دھونا رکن ہے، اور یہ رکنیت کی علت سر کے مسح میں بھی پائی جاتی ہے، لہٰذاسر کے مسح میں بھی تثلیث مسنون ہے ،__تو یہاں علت رکنیت اور حکم تثلیث ہے ،__ ہم احناف نے کہا کہ ہم حکم یعنی تثلیث مسنون ہونے کو تسلیم ہی نہیں کرتے ، بلکہ ہم کہتے ہیں کہ فرض ادا ہونے کے بعد محلِ فرض میں کچھ زیادتی کرکے فرض کو کامل ومکمل کرنا مسنون ہے، اور چونکہ وضو میں پورا چہرہ دھونا فرض ہے، تو اس میں اکمال کی سنت حاصل کرنے کے لئے تثلیث کاحکم دیا اور سر کے مسح میں پورے سر کا مسح فرض نہیں ہے اس لئے اس میں اکمال پورے سر کے مسح سے ہوجائے گا، اس لئے مسح ایک مرتبہ مسنون ہے۔
چوتھی قسم: یہ ہے کہ معترض حکم کے اس وصف کی طرف منسوب ہونے کو تسلیم نہ کرے ،یعنی معترض یوں کہے کہ حکم اس وصف کی طرف منسوب نہیں ہے، بلکہ دوسرے وصف کی طرف منسوب ہے، __ لہٰذا اوپر والے مسئلہ میں ہم کہتے ہیں کہ آپ نے حکم یعنی تثلیث کو وصف ِرکنیت کی طرف منسوب کیا ہے یعنی رکنیت کو تثلیث کی علت بتایا، تو پھر نماز میں قیام، رکوع، قرأت سجدہ سب رکن ہیں، تو ان میں بھی تثلیث ہونی چاہیے حالانکہ کوئی بھی اس کا قائل نہیں ہے، __ نیز مضمضہ اور استنشاق میں بھی باوجود رکن نہ ہونے کے تثلیث مسنون ہے، __ معلوم ہوا کہ تثلیث کے مسنون ہونے کی علت رکنیت نہیں ہے۔
وَاَمَّافَسَادُ الْوَضْعِ فَمِثَلُ تَعْلِیلِھِمْ لِاِ یْجَابِ الْفُرْقَۃِ بِاِسْلَامِ اَحَدِ الزَّوْجَیْنِ وَلِاِ بْقَاءِ النِّکَاحِ مَعْ اِرْتِدَادِ اَحَدِھِمَا فَاِنَّہٗ فَاسِدٌفِی الْوَضْعِ لِاَنَّ الْاِسْلَامَ لَایَصْلَحُ قَاطِعًا لِلْحُقُوْقِ وَالرِّدَّۃُ لَاتَصْلُحُ عَفْوًاوَاَمَّاالْمُنَاقَضَۃُ فَمِثْلُ قَوْلِھِمْ فِی الْوُضُوْءِ وَالتَّیَمُّمِ اَنَّھَمَا طَھَا رَ تَانِ فَکَیْفَ اِفْتَرَقَافِی النِّیَّۃِ قُلْنَا ھٰذَا یَنْتَقِضُ بِغَسْلِ الثَّوْبَ وَالْبَدَنِ عَنْ النَّجَاسَۃِ فَیَضْطَرُّ اِلٰی بَیَانِ وَجْہِ الْمَسْئَلَۃِ وَھُوَ اَنَّ الْوُضُوْءَ تِطْھِیْرٌ حُکْمِیٌّ لِاَنَّہٗ لاَیُعْقَلُ فِی الْمَحَلِّ نَجَاسَۃٌ فَکَانَ کَا لتَّیَمُّمِ فِیْ شَرْطِ النِّیَّۃِ لِیَتَحَقَقَّ