الْتَّعَبُّدُ فَھٰذِہٖ الْوُجُوْہُ تُلْجِئُی اَصْحَابَ الطَّرْدِ اِلَی الْقَوْلِ بِالتَّاثِیْرِ۔
ترجمہ :-اور بہرحال فسادِ وضع پس جیسے شوافع کا علت بنانا احدالزوجین کے اسلام کوفرقت ثابت کرنے کے لئے، اور زوجین میں سے ایک کے ارتداد کو نکاح باقی رکھنے کی (علت بنانا) پس یہ تعلیل فاسد ہے وضع کے اعتبار سے ،اس لئے کہ اسلام حقوق کے لئے قاطع بننے کی صلاحیت نہیں رکھتا ہے،اور ردت عفو کی صلاحیت نہیں رکھتی ہے۔
اور بہرحال مناقضہ پس جیسے شوافع کا قول وضو اور تیمم کے بارے میں کہ یہ دونوں طہارت ہیں، تو یہ دونوں نیت میں کیسے جدا ہوجائیں گے، تو ہم کہیں گے کہ یہ تعلیل کپڑے اور بدن سے نجاستِ حقیقیہ کو دھونے میں ٹوٹ جاتی ہے، تو مُعَلِّل مجبور ہوگا مسئلہ کی وجہ بیان کرنے کی طرف ، اور وہ وجہ یہ ہے کہ وضو طہارتِ حکمی ہے، اس لئے کہ محلِ غسل میں کوئی نجاست سمجھ میں نہیں آتی ہے، تو وضو نیت کے شرط ہونے میں تیمم کی طرح ہوگا ،تاکہ تعبد متحقق ہوجائے ،پس یہ چاروں قسمیں اصحابِ طرد (شوافع) کو تاثیر کے قائل ہونے پر مجبور کریں گی۔
------------------------------
تشریح :- علت ِطردیہ کو دفع کرنے کا تیسرا طریقہ فسادِ وضع ہے،فسادِ وضع کا مطلب یہ ہے کہ علت کی بنیاد ہی فاسد ہو ، مُعَلِّل نے ایسے وصف کو حکم کی علت بنایا ہے جس وصف کا حکم سے کوئی جوڑنہیں ،بلکہ یہ وصف اس حکم کی ضد کو چاہتاہے،__جیسے شوافع کہتے ہیں کہ دومیاںبیوی میں سے ایک اسلام قبول کرلے تو ایک کے اسلام لاتے ہی دونوں میں تفریق واقع ہوجائے گی ،اگر عورت غیر مدخو ل بہا ہے اور اگر عورت مد خول بہا ہے تو تین حیض گذرنے پر تفریق ہوجائے گی، تفریق واقع کرنے کے لئے دوسرے پر اسلام پیش کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے،__لیکن ہم احناف کہتے ہیں کہ یہ تعلیل اپنی وضع اور بنیاد ہی میں فاسد ہے،کیونکہ اسلام تو حقوق کی حفاظت کے لئے آیا ہے ،یہ تفریق کی علت کیسے بن سکتا ہے ،؟ ہاں تفریق جو ہوگی وہ دوسرے کے اِباَء اور انکار عن الاسلام سے ہوگی ،کیونکہ ایک جب مسلمان ہوگیا تو دوسرے پر اب اسلام پیش کیا جائے گا ،دوسرابھی اسلام لے آئے تو نکاح علی حالہ باقی رہے گا ،اور نہ قبول کرے تو اس کا انکار تفریق کا سبب بن جائے گا ،تو اباء اور انکار عن الاسلام کو تفریق کی علت بنانا بالکل معقول ہے۔
اسی طرح اگر میاں بیوی میں سے کوئی ایک نعوذباللہ مرتد ہوجائے اور عورت غیر مدخول بہا ہے، تو بالاتفاق فوراً فرقت واقع ہوجائے گی، اور اگر مدخول بہا ہے تو احناف کے نزدیک اس صورت میں بھی فوراً فرقت واقع ہوجائے گی __مگر امام شافعیؒ فرماتے ہیں کہ عدت کے بعد فرقت واقع ہوگی، تو انہوں نے عدت تک نکاح کو باقی رکھا،گویارِدَّت کو عفو کے قابل سمجھا اور ردت کو بقائے نکاح کی علت قرار دیا ،تو یہ بنیادی غلطی ہوئی کیونکہ ردّت منافیٔ نکاح