اس کا جواب یہ ہے کہ استحسان کوئی نئی چیز نہیں ،قیاس ہی کی قسم ہے،بس اتنا فرق ہے کہ قیاس ،جلی ہے اور استحسان قیاس ِخفی ہے،جب دونوں قیاس ہی کی قسمیں ہیں تو رہا یہ سوال کہ کہاں کس کو ترجیح ہوگی__ تو اس میں ضابطہ یہ ہے کہ جہاں جس کی تاثیر قوی اور مضبوط ہوگی وہاں اس کو ترجیح دیںگے ،لہٰذا جہاں استحسان کی تاثیر قوی ہوگی وہاں استحسان مقدم ہوگا ، اور جہاں قیاس کی تاثیر قوی ہوگی وہاںقیاس مقدم ہوگا،کیونکہ اثر کی قوت وصحت کااعتبار ہے نہ کہ اس کے ظہور کا ،یعنی اثر کے ظاہراور خفی ہونے کا اعتبار نہیںہے، بلکہ اثر کے قوی اور مضبوط ہونے کا اعتبار ہے،کیونکہ بعض دفعہ ایک چیز ظاہر ہوتی ہے مگر اس کا اثر ضعیف ہوتا ہے،اور ایک چیز مخفی ہوتی ہے مگر اس کا اثر قوی ہوتا ہے، جیسے دنیا اگرچہ ظاہر ہے مگر اس کااثر فنا ہونا ہے جو ضعیف ہے، اور آخرت مخفی ہے باطن ہے، مگر اس کا اثر بقا ہے جو قوی ہے،لہٰذا قوی کو ضعیف پر ترجیح دیں گے، ظاہر اور خفی ہونا نہ دیکھیں گے ،کیونکہ علت کا علت ہونا اثر اور تاثیر ہی کی وجہ سے ہوتا ہے۔
وَبَیَانُ الثَّانِیْ فِیْ مَنْ تَلَاآیَۃَ السَّجْدَۃِ فِیْ صَلٰوتِہٖ اَنَّہٗ یَرْکَعُ بِھَا قِیَاسًا لِاَنَّ النَّصَّ قَدْوَرَدَبِہٖ قَالَ ﷲ تَعَالٰی ’’وَخَرَّرَاکِعًاوَاَنَابَ‘‘ وَفِیْ الْاِسْتِحْسَانِ لَا یُجْزِیْہٖ لِاَنَّ الشَّرْعَ اَمَرَنا بِالسَّجُوْدِ وَالرُّکُوْعُ خِلَافُہٗ کَسُجُوْدِ الصَّلٰوۃِ فَھٰذَا اَثَرٌ ظَاھِرٌفَاَمَّا وَجْہُ الْقِیَاسِ فَمَجَازٌ مَحْضٌ لٰکِنَّ الْقِیَاسَ اَوْلٰی بِاَثَرِہٖ الْبَاطِنِ بَیَانُہٗ اَنَّ السُّجُوْدَ عِنْدَ التِّلَاوَۃِ لَمْ یُشْرَعْ قُرْبَۃً مَقْصُوْدَۃًحَتّٰی لَا یَلْزَمَ بِالنَّذْرِ وَاِنَّمَا الْمَقْصُوْدُ مُجَرَّدُمَا یَصْلَحُ تَوَاضُعًا وَالرُّکُوْعُ فِی الصَّلٰوۃِ یَعْمَلُ ھٰذَا الْعَمَلَ بِخِلَافِ سُجُوْدِ الصَّلٰوۃِ وَالرُّکُوْعِ فِیْ غَیْرِھَا فَصَارَ الْاَثَرُ الْخَفِیُّ مَعَ الْفَسَادَ الظَّاھِرِ اَوْلٰی مِنَ الْاَثَرِ الظَّاھِرِ مَعَ الْفَسَادَ الْخَفِیِّ وَھٰذَا قِسْمٌ عَزَّوُجُوْدہٗ وَاَمَّا الْقِسْمُ الْاَوَّلُ فَاَکْثَرُمِنْ اَنْ یُّحْصٰی
ترجمہ:-اور ثانی (جب قیاس مقدم ہو)کا بیان اس شخص کے بارے میں ہے جس نے اپنی نمازمیں آیت ِسجدہ تلاوت کی کہ وہ تلاوت کی وجہ سے قیاساً رکوع کرسکتا ہے ، اس لئے کہ نص (سجدہ کے معنی کے لئے)رکوع سے وارد ہوئی ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا و خرراکعاوانات،اوراستحسان میںاس کورکوع کافی نہ ہوگا، اس لئے کہ شریعت نے ہم کو سجدہ کا حکم دیا ہے اور رکو ع اس کے خلاف ہے ،جیسے نماز کا سجدہ ،پس یہ ظاہر ی اثر ہے ،پس بہر حال قیاس کی وجہ تو وہ مجازِ محض ہے ،لیکن قیاس اولی ہے اپنے باطنی اثر کی وجہ سے ،اور اثر باطن کا بیان یہ ہے کہ تلاوت کے وقت سجدہ