اور دوسرا قول جس کو مصنف وعندنا اجماع علماء سے بیان کررہے ہیں، اکثر احناف اکثر شوافع ، امام محمد، امام ابوحنیفہ ، اور خود مصنف ؒ سب اس کے قائل ہیں، وہ یہ ہے کہ اجماع کے لئے پوری امت کا اتفاق شرط نہیں ہے بلکہ ہر زمانے کے علماء کا اجماع حجت ہے، چاہے وہ حکم جس پر اجماع ہورہا ہے، عہد صحابہ میں مختلف فیہ رہا ہویا نہ رہا ہو، لہٰذا دونوں صورتوں میں تابعین کا اجماع حجت ہے، کیونکہ اجماع کے حجت ہونے پر دلالت کرنے والے دلائل دونوں صورتوں کو شامل ہیں، البتہ تیسری قسم کا اجماع یعنی تابعین کا وہ اجماع جس میں دور صحابہ میں اختلاف نہیں رہا ہے، وہ بمنزلہ خبر مشہور کے ہوگا، لہٰذا اس کا منکر گمراہ قرار دیا جائے گا، اور چوتھی قسم کاا جماع یعنی تابعین کا وہ اجماع جس میں دور ِصحابہ میں اختلاف رہا ہے وہ بمنزلہ خبرِ واحد ہوگا، جو موجب ِعمل تو ہوگا مگر مفیدِ ظن ہوگا، مفید یقین نہ ہوگا، اور تیسری قسم کا اجماع جو بمنزلہ خبرِ مشہور کے ہے وہ بھی موجب ِعمل ہوگا اور مفید طمانیت ہوگا۔
وَاِذَا اِنْتَقَلَ اِلَیْنَا اِجْمَاعُ السَّلَفِ بِاِجْمَاعِ عُلَمَاءِ کُلِّ عَصْرٍ عَلٰی نَقْلِہٖ کَانَ فِیْ مَعْنٰی نَقْلِ الْحَدِیْثِ الْمُتَوَاتِرِ وَاِذَا اِنْتَقَلَ اِلَیْنَا بِالْاِفْرَادِ کَانَ کَنَقْلِ السُّنَّۃِ بِالْاٰحَادِ وَھُوَ یَقِیْنٌ بِاَصْلِہٖ لٰکِنَّہٗ لَمَّا اِنْتَقَلَ اِلَیْنَا بِالْاٰحَادِ اَوْجَبَ الْعَمَلَ دُوْنَ الْعِلْمِ وَکَانَ مُقَدَّ مًا عَلَی الْقِیَاسِ۔
ترجمہ:-اور جب سلف کا اجماع ہماری طرف منتقل ہوا، ہر زمانے کے علماء کے اس کی نقل پر اجماع کے ساتھ تو وہ خبرِ متواتر کو نقل کرنے کے حکم میں ہوگا، اور جب وہ اجماع منتقل ہو ا،ہماری طرف آحاد کے طریقہ پر تو یہ خبر واحد کی نقل کی طرح ہوگا، اور یہ اجماع اپنی اصل کے اعتبار سے تو یقینی ہے لیکن جب وہ ہماری طرف منتقل ہوا آحاد کے طریقہ پر تو یہ عمل کو واجب کرے گا نہ کہ علم کو، اور یہ اجماع قیاس پر مقدم ہوگا۔
------------------------------
تشریح:-مصنفؒ اجماع کے رکن اور مراتب کے بیان سے فارغ ہوکر اب اجماع کے ہم تک منتقل ہونے کی کیفیت اور اس کے مراتب بیان کررہے ہیں، فرماتے ہیں کہ اگر صحابہ کا اجماع ہم تک ہر زمانے کے علماء کے اجماع کے ساتھ نقل ہوکر آئے ، یعنی ہر زمانے میں تمام علماء نے بالاتفاق اس اجماع کو نقل کیا ہو، جیسے حضرت ابوبکر کی خلافت پر اجماع، یہ اجماع ہم تک نقل ِمتواتر کے ساتھ آیا ہے، تو یہ اجماع خبرِ متواتر کے درجہ میں ہوگا، خبرِ متواتر کی طرح قطعی حجت ہوگا، حتی کہ اس کا منکر کافر ہوگا۔
اور اگر ہر زمانے کے علماء کے اتفاق کے ساتھ نقل ہوکر وہ اجماع ہم تک نہ پہنچا ہو، بلکہ آحاد اور افراد نے نقل کیا ہو جیسے اس پر اجماع منقول ہے کہ ظہر سے پہلے صحابہ چار رکعت پڑھتے تھے، اسی طرح فجر اسفار میں پڑھنا، ایک بہن