موت اس کے قول کو باطل نہیں کرتی ہے، اور ہمارے نزدیک ہر زمانے کے علماء کا اجماع اس میں بھی حجت ہے جس میں اختلاف پہلے ہوچکا ہے اور اس میں بھی جس میں اختلاف پہلے نہیں ہوا ہے، لیکن جس میں اختلاف پہلے نہیں ہوا ہے وہ بمنزلہ خبرِ مشہور کے ہے، اور جس میں اختلاف پہلے ہوا ہے وہ بمنزلہ صحیح خبر واحد کے ہے۔
------------------------------
تشریح:-مصنفؒ فرماتے ہیں کہ اجماع کے چند مراتب ودرجات ہیں، جیسے نصوص میں متفاوت درجات ہیں، بعض بعض سے اوپر ہیں، ایسے ہی اجماع میں بھی چار مراتب ودرجات ہیں۔
(۱)سب سے اعلی درجہ کا اجماع وہ ہے کہ صحابہ نے کسی امر پر صراحۃً اجماع کیا ہو جیسے اجمعنا علی ھذا کہا ہو، یہ سب سے قوی اجماع اس لئے ہے کہ اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے کیوں یہ تمام صحابہ کا اجماع ہے، ان میں اہلِ مدینہ بھی اور آلِ رسول بھی شامل ہیں، لہٰذا یہ اجماع آیت اور خبر متواتر کی طرح مفیدِ یقین ہوگا، اس کا منکر کافر ہوگا جیسے حضرت ابوبکر صدیق کی خلافت پر اجماع۔
(۲)دوسری قسم وہ اجماع ہے جو بعض صحابہ کی صراحت اور باقی کے سکوت سے ثابت ہو، یعنی کسی مسئلہ میں بعض صحابہ نے صراحت کی ہواور باقی صحابہ میں سے کسی کی طرف سے مخالفت ظاہر نہ ہوئی ہو بلکہ سکوت اختیار کیا ہو، تو جمہور کے نزدیک یہ بھی اجماع ہے، اس کو اجماع سکوتی کہیںگے، مگر یہ اجماع پہلے کے مقابلہ میں کم درجہ ہے کیونکہ سکوت بھی اگرچہ حکم کے ثابت کرنے پر دلالت کرتا ہے مگر صراحت کے مقابلہ میں کم درجہ دلالت ہوتی ہے۔
جمہور کی دلیل یہ ہے کہ اجماع منعقد کرنے کے لئے سب کی طرف سے قولی صراحت وموافقت مشکل ہے ، اگر سب کی قولی صراحت ضروری قرار دیں گے تو اجماع ہی منعقد نہ ہوسکے گا، اس میں عادۃً ایسا ہی ہوتا ہے کہ کچھ حضرات اتفاق کرلیتے ہیں پھر وہ فتوی امت میں شائع ہوتا ہے، تو باقی حضرات سکوت کرتے ہیں تو ان کا سکوت ان کے متفق ہونے کی دلیل ہوتا ہے، کیونکہ اگر یہ بات ان کے نزدیک حق نہ ہوتی تو وہ سکوت نہ کرتے، بلکہ اختلاف کرتے ، اور جب سکوت کیا تو یہ ان کے نزدیک حق ہونے کی دلیل ہے۔
دوسری دلیل یہ ہے کہ اگر یہ بات حق نہ ہوتی تو مجتہد سکوت نہ کرتا، کیونکہ ایسے امر میں سکوت حرام ہے، حق کو ظاہر کرنا ضروری ہے، لیکن جب سکوت کیا تو یہ اس کے حق ہونے کی دلیل ہے۔
اجماع سکوتی کے سلسلہ میں امام شافعی سے منقول ہے کہ یہ اجماع ہی نہیں ہے، اور نہ قابل ِحجت ہے، اور ہمارے اصحاب میں عیسی بن ابان کا بھی یہی مذہب ہے، نیز شعریہ میں سے ابوبکر باقلانی، بعض معتزلہ اور داؤد ظاہری بھی اسی کے قائل ہیں۔
ان حضرات کی دلیل یہ ہے سکوت ہمیشہ رضامندی اور موافقت کی دلیل نہیں ہوتا ہے، بلکہ کبھی متکلم کی ہیبت سے