قَاطِعَۃٌ فِیْ حَقِّہٖ وَاِنْ لَمْ یَکُنْ فِیْ حَقِّ غَیْرِہٖ بِھٰذِہِ الصِّفَۃِ وَمِمَّا یَتَّصِلُ بِسُنَّۃِ نَبِیِّنَا عَلَیْہِ السَّلَامُ شَرَائِعُ مَنْ قَبْلَہٗ وَالْقَوْلُ الصَّحِیْحُ فِیْہِ اَنَّ مَاقَصَّ اللّٰہُ تَعَالٰی اَوْرَسُوْلُہ مِنْھَا مِنْ غَیْرِ اِنْکَارٍ یَلْزَمُنَا عَلٰی اَنَّہٗ شَرِیْعَۃٌلِرَسُوْلِنَا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
ترجمہ:-اور سنن کے ساتھ متصل ہے اجتہاد کے ذریعہ احکامِ شرع کو ظاہر کرنے میں رسول اللہ ﷺ کے طریقہ کا بیان، اور اس فصل میں اختلاف کیا گیا ہے، اور صحیح قول ہمارے نزدیک یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺاجتہاد پر عمل کرتے تھے جب وحی سے آپ ﷺکی امید منقطع ہوجاتی اس واقعہ میں جس کے ساتھ آپ مبتلا ہوتے ، اور آپﷺ خطا پر برقرار نہیں رکھے جاتے ہیں، پس جب آپ کسی اجتہادی حکم پر برقرار رکھے گئے تو یہ حکم کے درست ہونے پر دلیل قطعی ہوگا برخلاف اس بیان بالرای (اجتہاد) کے جو آپﷺ کے علاوہ سے ہو، اور اجتہادالہام کی نظیر ہے اس لئے کہ الہام آپﷺ کے حق میں قطعی حجت ہے، اگر چہ الہام آپ ﷺکے علاوہ کے حق میں اس صفت کے ساتھ نہیں ہے۔
اور اس میں سے جو ہمارے نبی کی سنت کے ساتھ متصل ہے آپ ﷺسے پہلے انبیاء کی شریعتیں ہیں، اور اس میں قولِ صحیح یہ ہے کہ ان شرائع میں سے جس کو اللہ اور اس کے رسول نے بغیر نکیر کے بیان فرمایا ہے، وہ ہم پر لازم ہیں، اس بنیاد پر کہ وہ ہمارے رسول ﷺ کی شریعت ہے۔
------------------------------
تشریح:-تشریح سے پہلے بطور تمہید یہ سمجھیں کہ وحی دو طرح کی ہے، (۱)وحی ظاہر، (۲) اور وحی باطن پھر وحی ظاہر کی تین صورتیں ہیں (۱)جبرئیل علیہ السلام بیان کرکے کوئی حکم بتائیں جیسے نزول ِقران (۲)بغیر بیان کے جبرئیل کے اشارہ سے ہو (۳)بطریق الہام آپﷺ کے قلب پر کوئی حکم پہنچایا جائے۔
اور وحی باطن وہ ہے جو احکام مخصوصہ میںتأمل اور اجتہاد سے حاصل ہو۔
اب مصنفؒ فرماتے ہیں کہ وحی باطن یعنی حضورﷺکا اجتہاد بھی سنت کے ساتھ لاحق ہے، یعنی آپ ﷺکے اجتہاد کے ذریعہ جو حکم ظاہر ہوگا اس کابھی وہی حکم ہے جوسنت ِقولی اور فعلی کا ہے۔
مصنفؒ فرماتے ہیں کہ علماء کا اس میں اختلاف ہےکہ جن احکام میں وحی نہیں نازل ہوئی ،ان احکام میں آپ ﷺ اجتہاد فرماتے تھے یا نہیں؟ اشعریہ ، معتزلہ اور متکلمین کا مذہب یہ ہے کہ آپ اجتہاد نہیں فرماتے تھے، کیونکہ حضورﷺ کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا ’’وما ینطق عن الھوی‘‘ لہٰذا اجتہاد آپ ﷺکا حصہ نہیں