تھا،مگر اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ کا ارشاد وما ینطق عن الھوی قران کے بارے میں ہے، تمام احکام کے بارے میں نہیں ہے۔
اصولیین کی رائے اور یہی امام ابویوسف سے بھی منقول ہے، اور یہی امام مالک ،امام شافعی اور عام اہل حدیث کا مذہب ہے کہ حضورؐ اجتہاد فرماتے تھے، مصنف کے نزدیک بھی یہی قول پسندیدہ ہے، جس کی طرف والصحیح عندنا سے اشارہ کررہے ہیں کہ اگر حضورﷺ کو کوئی مسئلہ پیش آتا اور ایک مدت تک وحی کا انتظار کرنے کے باوجود وحی نہ آتی تو آپ اجتہاد فرماتے تھے، اور اس کے مطابق عمل فرماتے تھے۔
پھر مجتہد سے خطا بھی ہوتی ہے، مگر نبی کو اس کی خطا پر باقی نہیں رکھاجاتافوراً متنبہ کردیا جاتا ہے ، لہٰذا اگر حضورﷺ نے کوئی اجتہاد کیا اور آپ کو کسی طرح متنبہ نہیں کیا گیا تو یہ اس حکم کے صحیح ہونے پر قطعی دلیل ہوگا ، برخلاف دیگر مجتہدین کے کہ ان کے اجتہاد میں خطا کا احتمال ہوتا ہے، اور ان کو خطا پر متنبہ نہیں کیا جاتا ہے، لہٰذا ان کا اجتہاد دلیل قطعی نہ ہوگا۔
مصنفؒفرماتے ہیں کہ حضورﷺکا اجتہاد قطعی ہونے میں آپؐ کے الہام کی طرح ہے، یعنی جیسے آپ ﷺکا الہام قطعی حجت ہے، اسی طرح آپﷺ کا اجتہاد بھی قطعی حجت ہے، اور اس پر عمل لازم ہے، لیکن آپ ﷺکے علاوہ کا الہام یعنی کسی ولی یا مجتہد کا الہام اس درجہ کا نہیں ہے، لہٰذا اس کا الہام قطعی حجت نہ ہوگا۔
حضورﷺ کی اجتہاد ی خطا کی ذخیرۂ احادیث میں بہت سی مثالیں ہیں، جیسے بدر کے قیدیوں کے بارے میں حضورﷺنے صحابہ سے مشورہ کیا، سب نے الگ الگ رائے دی، حضرت ابوبکر کی رائے تھی کہ یا رسول اللہ! ان کو فدیہ لیکر چھوڑدیں، آج نہیں تو کل انہیں اسلام کی توفیق ہوجائے گی، حضرت عمررضی اللہ عنہ کی رائے تھی کہ یارسول اللہ!یہ اسلام کے دشمن ہیں، سب ان کے رشتہ داروں کے حوالہ کئے جائیں، عباس کو آپ قتل کریں، عقیل کو علی قتل کریں ، اورمیں فلاں کو قتل کروں تاکہ لوگوں کو پتہ چلے کہ اسلام کا رشتہ سب رشتوں سے مضبوط ہے، حضورﷺنے حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کی رائے پر فیصلہ کیا اور فرمایا مثلک یاابابکر کمثل ابراھیم حیث قال فمن تبعنی فانہ منی ومن عصانی فانک غفور رحیم ومثلک یاعمر کمثل نوح حیث قال رب لاتذر علی الارض من الکافرین دیارًا، چنانچہ آپ ﷺ نے فدیہ لے لیا، پھر آیت اتری ماکان للنبی ان یکون لہ اسری حتی یثخن فی الارض، حضورﷺ رو پڑے اور صحابہ بھی روئے، پھر آپ نے فرمایا، اگر اللہ کا عذاب نازل ہوتا تو عمر اور معاذ کے علاوہ کوئی نہ بچتا،__ آسمانی فیصلہ حضرت عمررضی اللہ عنہ کی رائے پر تھا، اور آپ ﷺنے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی رائے پر فیصلہ کیا، یہ خطا فی الاجتہاد ہے، مگر آپ کو مذکورہ آیت سے