کہتا ہے الامائۃ فانھا لیست علی تو معارضہ کی وجہ سے سو ہزار سے خارج ہوکر نوسو واجب ہوں گے، نتیجہ دونوں کے نزدیک ایک ہی ہے۔
طالب علمانہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر اختلاف کا ثمرہ اور فائدہ کیا؟
اس کا جواب یہ ہے کہ اس اختلاف کا بھی ثمرہ بعض مسائل میں ظاہر ہوگا، جب کہ مستثنی ، مستثنی منہ کے خلاف جنس ہو جیسے کسی نے کہا لفلان علی الف درھم الاثوبا، فلاں کے میرے ذمہ ایک ہزار درھم ہیں مگر ایک تھان کپڑے کا، تو ہمارے نزدیک یہ استثنا ہی درست نہ ہوگا کیونکہ غیر جنس بیان نہیں ہوسکتا، اور امام شافعی کے نزدیک درست ہے ،پس ہزار میں سے کپڑے کی قیمت کی مقدار کم ہو جائے گی ،کیوں کہ استثنا ان کے نزدیک دلیل معارض کی طرح ہے، اور معارضہ امکان کے مطابق ہوتا ہے اور ہزار میں سے کپڑے کی قیمت کا کم کردینا ممکن ہے، (درس حسامی)
وَعَلٰی ھٰذَا اِعْتَبَرَ صَدْرَ الْکَلَامِ فِیْ قَوْلِہٖ عَلَیْہِ السَّلَامُ لَاتَبِیْعُوا الطَّعَامَ بِالطَّعَامِ اِلَّا سَوَاءً بِسَوَاءٍ عَامًّا فِی الْقَلِیْلِ وَالْکَثِیْرِ اِلَّا اَنَّ الْاِسْتِثْنَاءَ عَارَضَہٗ فِی الْمَکِیْلِ خَاصَّۃً فَبَقِیَ عَامًّا فِیْمَا وَرَاءَ ہٗ وَقُلْنَا ھٰذَا اِسْتِثْنَاءُ حَالٍ فَیَکُوْنُ الصَّدْرُ عَامًّا فِی الْاَحْوَالِ وَذٰلِکَ لَایَصْلَحُ اِلَّافِی الْمِقْدَارِ وَاحْتَجَّ اَصْحَابُنَا رَضِیَ اللَّہُ عَنْھُمْ بِقَوْلِہٖ تَعَالٰی فَلَبِثَ فِیْھِمْ اَلْفَ سَنَۃٍ اِلَّاخَمْسِیْنَ عَامًّا فَالْخَمْسِیْنَ تَعَرَّضَ لِلْعَدَدِ الْمُثْبَتِ بِالْاَلْفِ لَالِحُکْمِہٖ مَعَ بَقَاءِ الْعَدَدِ لِاَنَّ الْاَلْفَ مَتٰی بَقِیَتْ اَلْفًا لَمْ تَصْلَحْ اِسْمًا لِمَادُوْنَھَا بِخِلَافِ الْعَامِ کَاِسْمِ الْمُشْرِکِیْنَ اِذَاخُصَّ مِنْہُ نَوْعٌ کَانَ الْاِسْمُ وَاقِعًا عَلَی الْبَاقِیْ بَلَاخَلَلٍ ثُمَّ الْاِسْتِثْنَاءُ نَوْعَانِ مُتَّصِلٌ وَھُوَ الْاَصْلُ وَتَفْسِیْرُہٗ مَا ذَکَرْنَا وَمُنْفَصِلٌ وَھُوَ مَالَایَصْلَحُ اِسْتِخْرَاجَہٗ مِنَ الْاَوَّلِ لِاَنَّ الصَّدْرَ لَمْ یَتَنَاوَلُہٗ فَجُعِلَ مُبْتَدَاءً مَجَازًا قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی فَاِنَّھُمْ عَدُوٌّلِّیْ اِلَّارَبَّ الْعٰلَمِیْنَ ای لٰکِنَّ رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ۔
ترجمہ:-اور اسی اصل پر امام شافعی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قول لاتبیعوا الطعام بالطعام الاسواء بسواء‘‘ میں صدر ِکلام کوعام قرار دیا ہے ،مگر یہ کہ استثناء صدرِ کلام کے معارض ہوگیا خاص طور پر مکیلی چیزوں میں، تو باقی رہا صدرِ کلام عام اس کے علاوہ میں، اور ہم نے کہا کہ یہ حالت کا استثناء ہے، لہٰذا صدرِ کلام احوال میں عام ہوگا،