------------------------------
تشریح:-احناف وشوافع میں جیسے تخصیص ِعموم میں اختلاف ہے ایسے ہی استثناء کے عمل کی کیفیت میں بھی اختلاف ہے، ہمارے نزدیک استثناء، مستثنی کی مقدار پر اس کے حکم کے ساتھ تکلم سے مانع ہے یعنی مستثنی کو مستثنی منہ سے خارج کرنے کے بعد جو باقی رہا گویا اسی کا تکلم کیا ہے، متکلم نے مستثنی کا تکلم کیا ہی نہیں ہے، جب مستثنی کا تکلم نہیں ہوا تو اس کا حکم بھی معدوم ہوگا، اور امام شافعیؒ کہتے ہیں کہ استثناء مستثنی کے تکلم سے مانع نہیں ہے یعنی متکلم نے مستثنی اور مستثنی منہ سب کا تکلم کیا ہے، پھر تعارض کی وجہ مستثنی مستثنی منہ سے خارج ہوجائے گا جیسے لفلان علی الف درھم الامائۃ، تو ہمارے نزدیک مستثنی یعنی مائۃ کو مستثنی منہ یعنی الف سے نکالنے کے بعد جو نوسو باقی رہا، متکلم نے اسی کا تکلم کیا ہے، اور امام شافعیؒ کے نزدیک تکلم تو مستثنی منہ اور مستثنی دونوں کا ہوا ہے مگر دونوں میں تعارض ہوا، کہ لفلان علی الف کا تقاضا ہے ایک ہزار واجب ہونے کا، اور الامائۃ کا تقاضا ہے سو کو ہزار میں سے نکالنے کایعنی نوسو واجب ہونے کا، تو تعارض کی وجہ سے سو ہزار سے خارج ہوگیا جیسے عام کی تخصیص میں ایسا ہی اختلاف ہے، مثلاً کسی نے کہا یہ انگوٹھی خالد کے لئے ہے، اور اس کا نگینہ حامد کے لئے ہے، تو انگوٹھی بمنزل عام ہے جو حلقہ اورنگ دونوں کو شامل ہے، پھر نگ کی تخصیص کردی تو ہمارے اور امام شافعیؒ دونوں کے نزدیک انگوٹھی خالد کے لئے ہوگی اور نگ حامد کے لئے ہوگا البتہ نوعیت تخصیص میں اختلاف ہے کہ ہمارے نزدیک مخصوص یعنی نگ عام یعنی انگوٹھی میں داخل ہی نہیں ہے، تخصیص کے بعد عام میں جو باقی رہا یعنی انگوٹھی کا حلقہ، متکلم نے صرف اسی کا تکلم کیا ہے اور امام شافعی کے نزدیک مخصوص عام میں داخل ہے پھر تخصیص کی وجہ سے تعارض ہوا، اس لئے مخصوص عام کے حکم سے خارج ہوگیا، (کان ادھر سے پکڑو یا گھما کر، نتیجہ ایک ہی ہے۔)
مصنفؒ فرماتے ہیں استثناء والااختلاف ایسا ہی ہے جیسے پہلے تعلیق بالشرط کا اختلاف گذرا کہ ہمارے نزدیک تعلیق بالشرط سبب سے مانع ہے اور امام شافعی کے نزدیک حکم سے مانع ہے، یعنی ہمارے نزدیک معلق بالشرط شرط کے پائے جانے سے پہلے سبب ہی نہیں بنتا، اور امام شافعی کے نزدیک سبب تو بن جاتا ہے مگر حکم واقع نہیں ہوتا جیسے انت طالق ان دخلت الدار میں انت طالق ہمارے نزدیک سبب ہی نہیں بنا، جب دخول دار پایا جائے گا تو انت طالق سبب بنے گا، اور امام شافعی کے نزدیک انت طالق سبب تو ابھی بن گیا مگر شرط کی وجہ سے ابھی حکم یعنی وقوع طلاق نہ ہوگا۔
بہرحال ہمارے نزدیک استثنامستثنی کی مقدار کو خارج کرنے کے بعد باقی کے تکلم کانام ہے، اور امام شافعی کے نزدیک تکلم تو دونوں کا ہوا ہے مگر معارضہ کے سبب مستثنی مستثنی منہ سے خارج ہوجائے گا، لہٰذا لفلان علی الف درھم الامائۃ کی تقریر یہ ہوگی لفلان علی تسعمائۃ،اور امام شافعی کے نزدیک ہزار کا اس نے اقرار کیا ہے پھر