ہونے کی صورت میں خیار ِعتق ملے گا، اور جب شوہر کے آزاد ہونے کی صورت میں خیار ملتا ہے تو غلام ہونے کی صورت میں بدرجہ اولی ملے گا۔
امام شافعی ؒ نے نافی پر عمل کیا اور کہا کہ بریرہ کی آزادی کے وقت ان کے شوہر غلام تھے، لہٰذا منکوحہ باندی کو اسی وقت خیار ملے گا جب اس کا شوہر غلام ہو، شوہر کے آزاد ہونے کی صورت میں خیار نہیں ملے گا۔
دوسرا مسئلہ نکاحِ مُحْرِم کا ہے جس میں ہمارے علماء نے نافی پر عمل کیا ہے، وہ یہ ہے کہ حالتِ احرام میں نکاح احناف کے نزدیک صحیح ہے البتہ وطی کرنا جائز نہیں ہے، اور امام شافعی کے نزدیک نکاح ہی صحیح نہیں ہوتاہے۔
اس سلسلہ میں دو روایتیں ہیں، پہلی روایت یزید بن اصم کی ہے کہ رسول اللہﷺ نے حضرت میمونہ سے نکاح کیا، اور اس وقت آپ حلال تھے یعنی احرام کھول چکے تھے__ یہ روایت مُثْبِت ہے، یہ امر زائد یعنی حلِ طاری کو ثابت کررہی ہے، دوسری روایت ابن عباس کی ہے کہ آپ اس وقت حالتِ احرام میں تھے__ یہ روایت نافی ہے، حلِ طاری کی نفی کررہی ہے، اس پر تو تمام رواۃ متفق ہیں کہ رسول اللہﷺ حضرت میمونہ سے نکاح کے وقت حلِ اصلی یعنی احرام باندھنے سے پہلے کی حالت میں نہیںتھے، بلکہ آپ نے احرام باندھا ہوا تھا ،البتہ اس میں اختلاف ہے کہ نکاح کے وقت احرام تھا یا نہیں؟ تو احناف نے نافی پر عمل کیااس لیے ان کے نزدیک حالتِ احرام میں نکاح درست ہے، البتہ وطی جائز نہیں ہے، اور امام شافعیؒ نے مُثبت پر عمل کیا اس لئے ان کے نزدیک حالت ِاحرام میں نکاح ہی درست نہیں ہے، الغرض احناف مُثبت ونافی میں تعارض کے وقت کبھی مُثْبِت کو اختیار کرتے ہیں کہیں نافی کو، پہلے مسئلہ میں مُثبت کو لیا اور دوسرے مسئلہ میں نافی کو۔
اسی طرح اگر جرح وتعدیل میں تعارض ہو، اس طرح کہ گواہوں کا تزکیہ کرنے والوں میں سے بعض نے کہا کہ یہ گواہ مجروح ہے اور بعض نے کہا کہ عادل ہے ،تویہاں جرح مُثْبِت ہے جو ایک امرِ زائد یعنی فسق کو ثابت کرتی ہے اور تعدیل نافی ہے جو اس امرِ زائد کی نفی کرتی ہے، اور گواہ کو اصلی حالت یعنی عدالت پر باقی رکھتی ہے، تو ہمارے علماء نے یہاںمُثْبِت کولیا ہے ،اور وہ جرح ہے لہٰذا جرح اولی ہوگی ،نافی کو ترک کردیں گے۔
وَالْاَصْلُ فِیْ ذٰلِکَ اَنَّ النَّفْیَ مَتٰی کَانَ مِنْ جِنْسِ مَایُعْرَفُ بِدَلِیْلِہٖ اَوْکَانَ مِمَّایَشْتَبِہُ حَالُہٗ لٰکِنْ عُرِفَ اَنَّ الرَّاوِیَ اِعْتَمَدَ عَلٰی دَلِیْلِ الْمَعَرِفَۃِ کَانَ مِثْلُ الْاِثْبَاتَ وَاِلَّا فَلَافَا لنَّفْیُ فِیْ حَدِیْثِ بَرِیْرَۃَؓمِمَّا لَایُعْرَفُ اِلَّابِظَاھِرِ الْحَالِ فَلَمْ یُعَارِضِ الْاِثْبَاتَ وَفِیْ حَدِیْثِ مَیْمُوْنَۃَؓ مِمَّا یُعْرَفُ بِدَلِیْلِہٖ وَھُوَ ھَیْأَۃُ الْمُحْرِمِ