کو رد کردیا اور اس پر عمل نہیں کیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ راوی متہم بالکذب ہے، اور یہ حدیث حضورﷺ سے ثابت نہیں ہے،ورنہ صحابہ اس کو قبول کرتے، اس چوتھی قسم میں موضوع کی بہ نسبت کذب کا احتمال کم ہوتا ہے __ اس کی مثال حضرت فاطمہ بنت قیس (جو مجہول راویہ ہے) کی حدیث، انہوں نے کہا کہ مجھے رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں میرے شوہر نے تین طلاق دی تو رسول اللہ ﷺنے فرمایا ’’لاسکنی لکِ ولانفقۃ‘‘مگر جب حضرت عمررضی اللہ عنہ کے پاس یہ حدیث پہنچی، تو آپ نے صحابہ کے مجمع میں فرمایا کہ ہم ایک عورت کی بات پر کتاب وسنت کو نہیں چھوڑیں گے، کیونکہ کتاب اللہ میں ہے، ’’لاتخرجوھن من بیوتھن‘‘یعنی عدت ونفقہ ہوگا، صحابہ میں سے کسی نے نکیر نہیں کی، تو یہ اجماع دلیل بنا کہ حدیث ِفاطمہ مُسْتَنْکر ہے، قیاس کے خلاف ہے، ہاں اگر چوتھی قسم میں حدیث قیاس کے موافق ہوتو اس پر عمل جائز ہوگا مگر یہ جواز قیاس کی وجہ سے ہوگا نہ کہ حدیث کی وجہ سے ، حدیث تو قیاس کے لئے صرف مُؤَیِد ہوگی۔
(۵)پانچویں قسم یہ ہے کہ مجہول راوی کی حدیث سلف میں ظاہر نہ ہوئی ہو، اور نہ کسی نے اس کو قبول کیا ہو نہ رد کیا ہو،تو اس حدیث پر عمل واجب تو نہیں ہے البتہ اگر یہ حدیث قیاس کے مخالف نہ ہوتو عمل جائز ہے کیونکہ دورِ صحابہ میں عدالت اصل ہے، لہٰذا راوی کو عادل سمجھتے ہوئے اس پر عمل جائز ہوگا، اگر خیر القرون کے بعد کا راوی ایسا ہوتو حدیث پر عمل جائز بھی نہ ہوگا، کیونکہ بعد کے دور میں فسق وفجور غالب ہے
فَصَارَ الْمُتَوَاتِرُ یُوْجِبُ عِلْمَ الْیَقِیْنِ وَالْمَشْھُوْرُ عِلْمَ الطَّمَانِیْنَۃِ وَخَبَرُ الْوَاحِدِ غَالِبَ الرَّایِٔ وَالْمُسْتَنْکَرُ مِنْہُ یُفِیْدُ الظَّنَّ وَاِنَّ الظَّنَّ لَایُغْنِیْ مِنَ الْحَقِّ شَیْئًا وَالْمُسْتَتَرُ مِنْہُ فِیْ حَیِّزِ الْجَوَازِ لِلْعَمَلِ بِہٖ دُوْنَ الْوُجُوْبِ۔
ترجمہ:-پس خبر متواتر واجب کرتی ہے علم ِیقین کو، اور مشہور علم ِطمانینت کو اور خبرِ واحد غالب رائے کو، اور خبرِ واحد میں مستنکر فائدہ دیتی ہے ظن کا، اور ظن حق میں سے کسی چیز کا فائدہ نہیں دیتا، اور خبرِ واحدمیں مُسْتَتر اس پر عمل کے لئے جواز کی جگہ میں ہے نہ کہ وجوب کی جگہ میں۔
------------------------------
تشریح:-مصنفؒ مسند کی تمام اقسام کو بطور خلاصہ ذکر کررہے ہیں، فرماتے ہیں کہ خبرِ متواتر علم ِیقینی کو واجب کرتی ہے، علم ِیقینی اس کو کہتے ہیں جس میں جانب ِمخالف کا بالکل احتمال نہیں ہوتا، اس کے مقابل حدیث ِموضوع ہوتی ہے ،جو کسی طرح سے بھی قابل ِحجت نہیں ہوتی، اور حدیث ِمتواتر ہرحال میں حجت ہوتی ہے ، خبرِ مشہور علم ِطمانینت کو واجب کرتی ہے، علم ِطمانینت اس کو کہتے ہیں جس میں جانب مخالف کا ہلکا سا احتمال ہوتا ہے، مشہور کے مقابل میں