مستنکر ہوتی ہے، اور خبر واحد غلبۂ ظن کا فائدہ دیتی ہے، ظن کہتے ہیں جس میں ثبوت کی جہت راحج اور عدم ثبوت کی جہت مرجوح ہو-- طمانینت اور ظن میں فرق یہ ہے کہ علم طمانینت میں عدم کی جہت بہت مرجوح ہوتی ہے، اور ظن میں عدم کی جہت طمانینت کے مقابلہ میں کم درجہ مرجوح ہوتی ہے، تو علم طمانینت ظن سے اقوی ہے، اور خبر واحد میں حدیث مستنکر ظن یعنی وہم کا فائدہ دیتی ہے، اور وہم حق میں کسی بھی چیز کا فائدہ نہیں دیتا، لہٰذا مستنکر پر عمل جائز نہیں ہے وہم اس کو کہتے ہیں جس میں عدمِ ثبوت راجح ہو، اور خبر واحد میں مستترجس کو سلف نے نہ قبول کیا ہونہ رد کیا ہو، اس پر عمل جائز تو ہے واجب نہیں کیونکہ خبر مستتر ایسے علم کا فائدہ دیتی ہے جس میں ثبوت اور عدم ثبوت کی دونوں جہتیں برابر ہوتی ہیں، لہٰذا یہ جائز ہوگا واجب نہ ہوگا ، یعنی اس پر عمل کرنا نہ کرنا دونوں جہتیں برابر ہیں،
وَیَسْقُطُ الْعَمَلُ بِالْحَدِیْثِ اِذَاظَھَرَ مُخَالَفَتُہٗ قَوْلًا اَوْعَمَلًا مِنَ الرَّاوِیْ بَعْدَ الرِّوَایَۃِ اَوْمِنْ غَیْرِہٖ مِنْ اَئِمَّۃِ الصَّحَابَۃِ وَالْحَدِیْثُ ظَاھِرٌ لَایَحْتَمِلُ الْخِفَاءَ عَلَیْھِمْ وَیُحْمَلُ عَلَی الْاِنْتِسَاخِ وَاُخْتُلِفَ فِیْمَا اِذَا اَنْکَرَہٗ الْمَرْوِیُّ عَنْہٗ قَالَ بَعْضُھُمْ یَسْقُطُ الْعَمَلُ بِہٖ وَھُوَ الْاَشْبَہٗ وَقَدْ قِیْلَ اِنَّ ھٰذَا قَوْلُ اَبِیْ یُوْسُفَؒ خِلَافًا لِمُحَمَّدٍ وَھُوَ فَرْعُ اِخْتِلافِھِمَا فِیْ شَاھِدَ یْنِ شَھِدَا عَلَی الْقَاضِیْ بِقَضْیَۃٍ وَھُوَ لَا یَذْکُرُھَا قَالَ اَبُوْیُوْسَفَ لَاتُقْبَلُ وَقَالَ مُحَمَّدٌ تُقْبَلُ۔
ترجمہ:-اور ساقط ہوجائے گا حدیث پر عمل کرنا جب کہ راوی کی مخالفت ظاہر ہو قولاً یا عملاً روایت کے بعد ،یا راوی کے غیر کی طرف سے ائمہ حدیث میں سے ،جب کہ حدیث ایسی ظاہر ہو جو ان پر مخفی ہونے کا احتمال نہ رکھتی ہو، اور محمول کیا جائے گا حدیث کو منسوخ ہونے پر۔
اور اختلاف کیا گیا ہے اس صورت میں جب کہ مروی عنہ (استاذ) حدیث کا انکار کردے، بعض نے کہا ہے کہ اس پر عمل ساقط ہوجائے گا اور یہی حق کے زیادہ مشابہ ہے، اور کہا گیاہے، کہ یہ امام ابو یوسف کا قول ہے، امام محمد کے خلاف ، اور یہ اختلاف فرع ہے ان دونوں کے اختلاف کی ان دو گواہوں کے بارے میں جنہوں نے قاضی کے خلاف گواہی دی کسی فیصلہ میں ،اور حال یہ ہے کہ قاضی کو وہ فیصلہ یاد نہیں ہے، تو امام ابویوسف نے کہا کہ ان دونوں کی گواہی قبول نہ ہوگی اور امام محمد نے کہا کہ قبول کی جائے گی۔
------------------------------
تشریح:-اگر کسی راوی نے روایت کرنے کے بعد اس حدیث کی مخالفت کی یعنی اس کا قول یا عمل یا فتوی روایت کے خلاف ہوا ،تو یہ حدیث قابل عمل نہ ہوگی، کیونکہ راوی کا اس روایت کے خلاف عمل یا تو اس وجہ سے ہوگا کہ