(۲) دوسری قسم یہ ہے کہ اس مجہول راوی کی روایت جب سلف کو پہنچی تو انہوں نے اس پر طعن نہ کیا ہو بلکہ سکوت کیا ہو، ان دونوں قسموں میں مجہول راوی کی روایت اس راوی کی روایت کی طرح قبول کی جائے گی جو عدالت، ضبط اور فقہ میں معروف ہے، اور اس کو قیاس پر مقدم کیا جائے گا۔
(۳) تیسری قسم یہ ہے کہ اس مجہول راوی کی حدیث میں سلف (صحابہ) نے اختلاف کیا ہو، ، بعض صحابہ نے قبول کیا ہو اور بعض نے اس کی حدیث کو رد کردیا ہو، اس کے باوجود ائمہ ثقات نے اس کی حدیث کو نقل کیا ہو تو ہمارے نزدیک یہ حدیث معروف راوی کی حدیث کی طرح قابل قبول ہوگی، اور قیاس پر مقدم ہوگی __ اس کی مثال عبد اللہ بن مسعود سے پوچھا گیا کہ ایک آدمی نے ایک عورت سے نکاح کیا اور اس کا مہر ذکر نہیں کیا اور نہ دخول کیا کہ اس سے پہلے ہی اس کا انتقال ہوگیا ،تو اس عورت کے بارے میں کیا حکم ہے؟ تو ابن مسعود اس مسئلہ میں ایک مہینہ تک غور وفکر کرتے رہے،اور سائل مسلسل چکر لگاتا رہا،بالاخر ابن مسعود نے فرمایا کہ میں نے حضورﷺ سے اس سلسلہ میں کچھ نہیں سنا ہے،اپنی رائے سے اجتہاد کرتا ہوں اگر درست ہو تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے ہے اور اگر خطا ہوتو میری اور شیطان کی طر ف سے ہے،میں اس عورت کے لئے مہرِ مثل سمجھتا ہوں، نہ اس سے کم نہ زیادہ، اور عدت بھی واجب ہے اور اس کے لئے میراث بھی ہوگی، یہ جواب سن کرمَعْقَل بن سِنَان کھڑے ہوئے اور کہا کہ ہمارے اندر ایک عورت ہے ،ہلال بن مُرَّہ کی بیوی بردع بنت واشق، حضورﷺنے اس کے لئے یہی فیصلہ کیا تھا، تو ابن مسعوداس موافقت سے اتنے خوش ہوئے کہ اس سے پہلے کبھی خوش نہیںہوئے تھے__ معقل بن سنان (جو مجہول راوی ہے) کی روایت کو ابن مسعود نے قبول کیا اور حضرت علی نے اس کو رد کردیا اور قیاس پر عمل کرتے ہوئے کہا کہ اس عورت کے لئے میراث ہے، عدت بھی واجب ہے مگر مہر نہیں ہے، قیاس کی علت یہ ہے کہ معقود علیہ یعنی عورت کی ملک ِبضع دخول نہ کرنے کی وجہ سے صحیح سالم عورت کی طرف لوٹ آئی، اور مہر ملک بضع کے مقابلہ میں ہوتا ہے، لہٰذا یہ عورت مہر کی مستحق نہ ہوگی__ یہ مسئلہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی آدمی بیوی کو قبل الدخول طلاق دیدے اور مہر طے نہ کیا ہو، تو وہ عورت مہر کی مستحق نہیں ہوتی، حضرت امام شافعی نے حضرت علی کے قیاس پر عمل کیا اور ہم نے اس حدیث پر عمل کیا، کیونکہ اس حدیث کو ثقہ راویوں نے روایت کیا ہے، قرن اول میں ابن مسعود ، اور ان کے بعد علقمہ، مسروق اور حسن وغیرہ نیز یہ حدیث قیاس کے مطابق بھی ہے کیونکہ موت جس طرح مہرِ مُسمّٰی کو مُؤکد کردیتی ہے ،ایسے ہی مہر مثل کو بھی مؤکد کردیتی ہے، لہٰذا مہر مثل کی مستحق ہوگی۔
(۴)چوتھی قسم یہ ہے کہ اس مجہول راوی کی حدیث کو سلف نے رد کردیاہو، تو وہ حدیث قابلِ قبول نہ ہوگی، اس حدیث کو مُسْتَنکر کہا جائے گا، ایسی حدیث اگر قیاس کے مخالف ہوتو قابلِ عمل نہ ہوگی، کیونکہ جب صحابہ نے اس حدیث