اور واجب اس حکم کو کہتے ہیں جس کا ثبوت ایسی دلیل سے ہو جس میں کچھ شبہ ہو یعنی دلیل ِظنی سے ثبوت ہو، پھر شبہ چاہے دلیل کے ثبوت میں ہو جیسے خبرواحد یادلیل کی دلالت میں شبہ ہو جیسے عام مخصوص منہ البعض ،مجمل،مؤول۔
واجب کا حکم یہ ہے کہ اس پر عمل لازم ہے ، لیکن یہ دلیل میں شبہ کے سبب مفید ِیقین نہیں ہوتا ،نہ اس پر اعتقاد لازم ہوتا ہے، اس لئے اس کا منکر کافر نہ ہوگا، البتہ اس کا تارک فاسق ہوگا ،اگر وہ خبر واحد کو کم درجہ کی دلیل سمجھ رہا ہو،__ لیکن اگر وہ خبر واحد کو ہلکا سمجھے یعنی حقیر سمجھے تو کافر ہوجائے گا، کیونکہ شریعت کے ادنی حکم کی اہانت کفر ہے__ اور اگروہ خبرواحد میں تاویل کرکے عمل کو چھوڑرہا ہے جیسے وہ کہے کہ ضعیف ہے، کتاب اللہ کے مخالف ہے، تو اس طرح واجب پر عمل چھوڑنے سے فاسق بھی نہ ہوگا، کیونکہ تاویل کرنے والا تحقیق سے عمل چھوڑرہا ہے نہ کہ ہوائے نفس سے۔
وَالسُّنَّۃُ اَلطَّرِیْقَۃُ الْمَسْلُوْکَۃُ فِی الدِّیْنِ وَحُکْمُھَا اَنْ یُطَالَبَ الْمَرْءُ بِاِقَامَتِھَا مِنْ غَیْرِ اِفْتِرَاضٍ وَلَاوُجُوْبٍ لِاَنَّھَا طَرِیْقَۃٌ اُمِرْنا بِاِحْیَائِھَا فَیَسْتَحِقُّ اللَّائِمَۃَ بِتَرْکِھَا وَالسُّنَّۃُ نَوْعَانِ سُنَّۃُ الْھُدیٰ وَتَارِکُھَا یَسْتَوْجِبُ اِسَاء ۃٗ وکَرَاھۃً وَالزَّوَائِدُ وَ تَارِکُھَا لَا یَسْتَوْجِبُ اِسَا عَۃً وَکَرَاھَۃً کَسِیَرِالنَّبِیِّ عَلَیْہِ السَّلَامُ فِی قِیَامِہٖ وَقُعُوْدِہٖ وَلِبَاسِہٖ وَعَلٰی ھٰذَا تُخَرَّجُ الْاَلْفَاظُ المَذْکُوْرَۃُ فِیْ بَابِ الْاَذَانِ مِنْ قولِہٖ یَکْرَہُ اَوْقَدْ اَسَاءَ اَوْلَابَاسَ بِہٖ وَحَیْثُ قِیْلَ یُعِیْدُ فَذٰلِکَ مِنْ حُکْمِ الْوُجُوْبِ وَالنَّفْلُ اِسمٌ لِلزِّیَادَۃِ فَنَوَافِلُ الْعِبَادَاتِ زَوَائِدٌ مَشْرُوْعَۃٌ لَنَالَا عَلَیْنَا وَحُکْمُہٗ اَنَّہٗ یُثَابُ الْمَرْئُ عَلٰی فِعْلِہِ وَلَایُعَاقَبُ عَلٰی تَرْکِہٖ وَیَضْمَنُ بِتَرْکِہٖ بِالشُّروْعِ عِنْدَنَا لِاَنَّ الْمُوَدّٰی صَارَلِلّٰہِ تَعَالٰی مُسَلَّمًا اِلَیْہِ وَھُوَ کَالنَّذْرِ صَارَلِلّٰہِ تَسْمِیَۃً لَافِعْلًا ثُمَّ وَجَبَ لِصِیَانَتِہٖ اِبْتِداءُ الْفِعْلِ فَلَاْن یَجِبَ لِصِیَانَۃِ اِبْتَدَاءِ الْفِعْلِ بَقَاءُ ہٗ اَوْلٰی۔
ترجمہ:-اور سنت وہ طریقہ ہے جو رائج ہو دین میں، اور سنت کا حکم یہ ہے کہ آدمی سے مطالبہ کیا جائے گا اس کو قائم کرنے کا بغیر وجوب کے ، اس لئے کہ سنت ایسا طریقہ ہے جس کو زندہ کرنے کا ہمیں حکم دیاگیا ہے، پس ہم ملامت کے مستحق ہوں گے اس کو چھوڑنے سے۔
اور سنت دو قسم پر ہے ، سنتِ ہدی اور اس کو چھوڑنے والا سزا اور ملامت کا مستحق ہوگا، اور سنتِ زوائد اور اس کا چھوڑنے والا سزا اور ملامت کا مستحق نہ ہوگا جیسے رسول اللہ ﷺ کی عادتیں، آپ کے قیام ، قعود اور لباس میں، اور اسی پرتخریج کی جائے گی ان الفاظ کی جو مبسوط کے باب الاذان میں مذکور ہیں یعنی امام محمدؒ کا قول یَکْرَہٗ یا قَدْاَسَاءِ