ملفوظات حکیم الامت جلد 8 - یونیکوڈ |
|
کرتے تھے کہ جو شخص ہم کو حاجت مند سمجھ کر ہدیہ دے اس کو قبول نہیں کیا جاتا اور خواہ واقع میں ہم حاجت مند ہی ہوں مگر اس کو حاجت مند سمجھنے کا کیا حق ہے البتہ جو محبت سے دے اس کو لے لینا چاہئے ۔ اور حضرت مولانا ہی کا ایک یہ معمول تھا کہ سفر میں ہدیہ قبول نہ فرماتے تھے اور اس کی وجہ فرمایا کرتے تھے کہ اس میں ہم کو دیکھ کر ہدیہ دینے کا قلب میں داعیہ پیدا ہوا ہے ممکن ہے کہ اصلی محبت نہ ہو یا ہو اور جوش اس کا سبب ہو ممکن ہے کہ مصلحت سمجھ میں آنے کے بعد یا جوش ٹھنڈا ہونے کے بعد پچھتائے ۔ یہ حضرات حکیم ہیں ان کی معمولی باتوں میں حکم اور علوم ہیں ۔ پھر فرمایا کہ آج کل کے ہدایا پر ایک واقعہ یاد آیا کہ جس زمانہ میں بھائی اکبر علی مرحوم سرکاری ملازم تھے غالبا اس وقت عہدہ پیش کاری پر ممتاز تھے ۔ ایک شخص ان کے پاس آیا اس کا ایک مقدمہ اسی حاکم کے یہاں تھا جن کے یہ پیش کار تھے اس نے بھائی مرحوم کو تین روپیہ دئیے ۔ پوچھا یہ کیسے ہیں کہا کہ میں آپ کو خوشی سے دیتا ہوں ۔ انہوں نے کہا کہ میں اول تو لیا نہیں کرتا ۔ دوسرے مقدمہ میں خلاف روئداد کوشش نہ کروں گا پھر مجھ کو کیوں دیتے ہو کہا کہ بھلا آپ نے کیا خیال کیا میں تو محض محبت کی وجہ سے دے رہا ہوں ۔ انہوں نے لے کر الگ رکھ لئے بڑے دانشمند تھے مقدمہ لڑا بلآخر یہ شخص مقدمہ ہار گیا تو بھائی مرحوم کے پاس آیا کہ منشی جی میں مقدمہ ہار گیا انہوں نے کہا کہ ہاں بھائی معلوم ہے کہ کہ تم مقدمہ ہار گئے کہا کہ اب میں کیا کروں بھائی مرحوم تھے بڑے ظریف جیب میں سے نکال تین روپیہ اس کے حوالہ کئے اور کہا کہ اب یہ کرو وہ روپیہ لے کر چلتا بنا ایک لفظ نہیں بولا ۔ یہ محبت سے دئیے تھے یہی حالت آج کل کے اکثر ہدیہ دینے والوں کی ہے کہ اغراض کی وجہ سے ہدیہ دیتے ہیں حالانکہ ہدیہ کا مدار محض محبت اور خلوص ہونا چاہئے اور اس کی پہچان مشکل تھی تو جیسے قصر کی اصل علت مشقت ہے مگر اس کی پہچان مشکل تھی اس لئے احکام میں سفر کو اس کے قائم مام کر دیا گیا ۔ اسی طرح میں نے ہدیہ میں عمل کیا کہ خلوص عدم خلوص کی پہچان مشکل تھی اس لئے خصوصیت کی جان پہچان کو خلوص کے قائم مقام کر رکھا ہے یہی وجہ ہے کہ میرا معمول ہے کہ جس سے خاص جان پہچان اور بے تکلفی نہ ہو جو غالب علامت ہے خلوص کی اس سے میں ہدیہ قبول نہیں کرتا ۔