ملفوظات حکیم الامت جلد 8 - یونیکوڈ |
|
چاہتے یہ ہیں کہ ہم جو چاہے حرکتیں کریں سب پر دل سے راضی رہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ہمارے تابع رہے سو مجھ سے یہ نہیں ہو سکتا ۔ اس حالت میں جس کا جی چاہے مجھ سے تعلق رکھے یا نہ رکھے ۔ میں آنے والوں کی غلامی نہیں کر سکتا ۔ رازف اس کا یہ ہے کہ لوگ محض برکت کے طالب بن کر آتے ہیں ۔ اور زیارت کر لینے کو کافی سمجھتے ہیں ۔ اگر ایسی ہی برکت مطلوب ہے اور اس کا حاصل کرنا ہے تو فضول روپیہ اور وقت صرف کرتے ہیں ۔ سفر کی صعوبتیں برداشت کرتے ہیں ۔ گھر بار کو چھوڑتے ہییں ۔ گھر بیٹھے ہی قرآن شریف کی زیارت کر لیا کریں وہ بہت ہی زیادہ برکت کی چیز ہے کیا کہوں کیسا لوگوں میں بد فہمی کا مرض عام ہو گیا ہے ۔ اگر برکت کافی ہوتی تو جناب رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم میں وہ برکت تھی کہ ابو طالب تو کیا وہ تو عاشق ہی تھے ابو جہل اور ابو لہب بھی مسلمان ہو جاتے ۔ اس سے معلوم ہو گیا کہ مراد برکت سے یہ برکت کافی نہیں جس کو لوگ آج کل برکت سمجھتے ہیں بلکہ تعلیم کی برکت مراد ہے کہ اس پر عمل کرنے سے جو اعمال کے انوار وآثار قلب میں پیدا ہوتے ہیں وہ حقیقی برکت ہے ۔ یہاں سے یہ بات بھی ثابت ہو گئی کہ لوگ جو آج کل تصرف اور توجہ کے دلدادہ ہیں اور ان چیزوں کو کمال سمجھتے ہیں یہ بھی کوئی کمال کی چیز نہیں ۔ ورنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کس کی توجہ اور تصرف ہو سکتا تھا اگر اس سے کام لیا جاتا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک نظر میں عالم کا عالم زیرو زبر ہو جاتا اور دنیا میں ایک کافر بھی نظر نہ آتا سب کے سب مسلمان اور ایمان والے ہی ہوتے مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم تو کوئی کام بدون ازن کے نہ کرتے تھے جس جگہ جس قوت کے استعمال کا حکم دیا وہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی قوت سے کام لیا ۔ اسی تدابیر مامور بہا کا درجہ معلوم ہوتا ہے کہ اصل طریق تدابیر ہیں ان کا استعمال بھی تربیت ہے اور لوگ اسی سے گھبراتے ہیں اور میں اسی کا اہتمام کرتا ہوں یہ وجہ ہے موافقت نہ ہونے کی جیسے ایک رئیس نوا کھالی کے یہاں پر آکر رہے تھے کچھ دنوں قیام کرکے جب وطن واپس ہوئے تو وہاں کے لوگوں نے یہاں کے حالات معلوم کرنا چاہے ان رئیس نے کہا کہ وہاں کے حالات کا خلاصہ یہ ہے کہ جس کو مقدمہ بازی سیکھنا ہو وہاں چلا جاوے ۔ یہاں پر بیچاروں نے تدابیر تربیت میں کچہری کا سا رنگ دیکھا