ملفوظات حکیم الامت جلد 8 - یونیکوڈ |
|
کریں صاحبو فلاں اسٹیشن پر ہمارا بیگ اٹھ گیا ہماری مدد کرو ۔ اور دوسری صورت جو آپ کے نزدیک جائز اور ہمارے نزدیک شرعا ناجائز وہ یہ ہے کہ ہم بڑے بڑے عہدے حاصل کریں جن کی بڑی بڑی تنخواہ ہو سو یہ دونوں صورتیں تو ہم اختیار کر نہیں سکتے اب صرف ایک تیسری صورت رہ گئی وہ یہ کہ ہر جگہ کے مسلمان خاص علماء کے وعظ کہنے کے لئے قیمتی وردی بنا کر رکھ لیں اور وعظ کہنے کے وقت وہ وردی واعظ کو پہنادی جایا کرے اب میں منتظر ہوں کہ وہ کون صاحب ہیں جو اس کا انتظام کریں گے اور اگر ایسا نہ کریں تو پھر ایسی رائے دے کر ڈوب مریں پھر کسی نے دم نہیں مارا ۔ اور اسی سلسلہ میں شملہ ہی کا ایک اور واقعہ بیان فرمایا کہ وہاں کے بعض معززین تعلیم یافتہ صاحبوں نے مولانا انور شاہ صاحب سے کہ وہ بھی اسی سفر میں تھے اعجاز قرآن پربیان کرنے کی فرمائش کی چنانچہ بیان کیا گیا مضمون غامض تھا وہ لوگ بھی نہیں سمجھے پھر اس پر اعتراض کیا گیا کہ ایسے بیان کیا نفع جب سمجھ میں ہی نہیں آیا یہ بیان تو مدرسہ دیوبند میں بیٹھ کر کرنا تھا اس کا جواب بھی وعظ میں میں نے ہی دیا کہ شاہ صاحب نے جو ایسا بیان کیا ہے وہ اضطرارا نہیں کہ سہل بیان پر قادر نہیں بلکہ ایک مصلحت سے قصدا بیان کیا ہے اور وہ مصلحت یہ ہے کہ آج کل مدعیان علم بہت زیادہ پیدا ہوئے ہیں اور اجتہاد کا دروازہ کھل گیا ہے حتی کہ انگریزی پڑھ پڑھ کر قرآن و حدیث کا اردو ترجمہ دیکھ کر علوم میں دخل دینے لگے ہیں تو شاہ صاحب نے دکھلا دیا کہ تم اہل علم کے کلام کو بھی نہیں سمجھ سکتے چہ جائیکہ قرآن و حدیث میں اجتہاد کر سکو ۔ بتلائیے اس بیان سے کیا یہ نفع تھوڑا ہوا کہ تم کو اپنے جہل پر اطلاع ہوگئی ۔ سب شرمندہ ہوگئے مجھ کو جاہلوں کا علماء پر اعتراض کرنا بھی نا گوار ہوتا ہے اس لئے بھی یہ جواب دیا گیا اسی سلسلہ میں کہ علماء پر عوام کے ایک اعتراض کا جواب دیا گیا ایک قصہ اور بیان فرمایا کہ قصبہ بگرہ میں ایک مدرسہ کا جلسہ تھا وہاں کے منتظمین نے پنڈال بنایا جس میں روپیہ زیادہ صرف کیا اور علماء کی آمد پر جھنڈیوں سے استقبال کا سامان کیا اس پر دیوبند کے مہمان علماء نے نا پسندیدگی کا اظہار کیا اور واپس چلے گئے ۔ اس پر ایک قصبہ کے رہنے والے نے میرے سامنے اعتراض کیا کہ جس وقت مدرسہ دیوبند میں لیفٹیننٹ گورنر آیا تھا اس کی آمد پر ایسے ہی تکلفات کئے گئے تھے حیرت کی بات ہے کہ ہم اگر علماء کا اکرام