ملفوظات حکیم الامت جلد 8 - یونیکوڈ |
|
مقصود میں ساری ساری عمریں خراب اور برباد ہو جاتی ہیں اور حقیقت کا پتہ تک نہیں چلتا ۔ غرض کہ شیخ کامل کے سر پر ہونے کی ضرورت ہے وہ اس راہ کا واقف ہوتا ہے وہ ہر شخص کی حالت کے مطابق تعلیم کرتا ہے سب کو ایک لکڑی نہیں ہانکتا کیونکہ ہر ایک کی طلب جدا ۔ مذاق جدا۔ قوت جدا ۔ فہم جدا ۔ عقل جدا ۔ جب ہر شخص کے ساتھ جدا معاملہ ہوتا ہے تو بعض لوگ جو ایسا کرتے ہیں کہ ایک خط میں دو شریک ہوکر اپنے حالات لکھ دیتے ہیں ان کی غلطی ثابت ہوگئی اسی لئے میں لکھ دیتا ہوں کہ الگ الگ خط میں حالات لکھو تب جواب دوں گا اس پر مجھ کو بد نام کرتے ہیں کہ مزاج میں درشتی ہے ۔ اصولی بات کو مزاج کی درشتی سمجھتے ہیں ۔ میں کہا کرتا ہوں کہ تین نقطے اس میں سے الگ کردو یعنی درستی ہے ۔ اختلاف معاملہ کی وجہ سے اس کی ایسی مثال ہے کہ اگر ایک قبر میں چند مردے دفن کر دیئے جائیں تو کیا منکر نکیر ایک ہی ساتھ سب سے سوال وجواب کریں گے ۔ یا جدا جدا ۔ ظاہر ہے کہ چونکہ ہر شخص کے ساتھ اس کی حالت کے مناسب جدا معاملہ ہے اس لئے دونوں یکے بعد دیگرے سوالات کریں گے بس ایسا ہی سمجھنا چاہئے بلکہ میرا تو اصلاحی گفتگو کے علاوہ دوسری گفتگو میں بھی یہی معمول ہے کہ ایک وقت میں مخاطبت ایک ہی شخص سے کرتا ہوں ۔ اگر چند آدمی خطاب کرنا چاہیں میں کہہ دیتا ہوں کہ گفتگو کے لئے ایک صاحب کو منتخب کر لیا جائے ۔ پھر دوسرے خواہ ان کی مدد کریں مگر مجھ سے ایک ہی صاحب خطاب کریں ۔ یہ بالکل خلاف اصول ہے کہ ایک داہنے سے بول رہا ہے ایک بائیں سے ایک سامنے سے ایک پیچیھے سے خواہ مخواہ انتشار ہوتا ہے ہر چیز قاعدہ اور اصول ہی سے اچھی معلوم ہوتی ہے ۔ فرمایا کہ منکر نکیر کے سوال پر استطرادا ایک حکایت یاد آئی ۔ اس پر ایک مفید تفریع بھی ذہن میں آگئی اس کو بیان کرتا ہوں ایک شخص نے ایک مولوی صاحب سے وعظ میں سنا کہ قبر میں اس طرح عذاب ہوتا اس طرح دوفرشتے منکر نکیر سوال کرتے ہیں اس کو خیال ہوا کہ دیکھنا چاہئے ایک روز یہ شخص قبرستان میں پہنچا اور ایک شکستہ قبر میں چادر اوڑھ کر لیٹ گیا کہ دیکھوں کیا ہوتا ہے ۔ اتفاق سے ایک سپاہی کا اس قبرستان کے پاس سے گزر ہوا جو گھوڑی پر سوار تھا ۔ یہاں پہنچ کر گھوڑی کے بچہ پیدا ہو گیا ۔ اب سپاہی پریشان تھا کہ گھوڑی کا بچہ گاؤں تک کس