ملفوظات حکیم الامت جلد 8 - یونیکوڈ |
|
حکم دیں تو میں اس کو بھی حضرت ہی کا حکم سمجھوں گا اور یہ سمجھوں گا کہ حضرت کے دو حکم ہیں ایک مقدم ایک موخر تو میں پہلے کو منسوخ اور دوسرے کو ناسخ سمجھوں گا باقی اس وقت تو مقصود دعاء کرانا تھا یہ سن کر حضرت پر ایک حالت طاری ہوگئی اور فرمایا کہ نہیں نہیں اگر حضرت کا حکم ہے تو خلاف نہ کرنا چاہئے اور میں دعاء کروں گا چنانچہ بحمد اللہ قرض ادا ہو گیا ۔ اسی سلسلہ میں ترک ملازمت مدرسہ کانپور کے واقعہ کا ذکر فرمایا کہ میں کانپور میں نہایت دل چسپی سے رہتا تھا جب حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ اگر کبھی کانپور سے دل برداشتہ ہوتو اور کہیں تعلق مت کرنا وطن ہی میں رہنا ۔ بہت خوش ہوا کہ حضرت نے حکم جازم نہیں دیا دل برداشتگی پر معلق فرمایا سو میں کیوں دل برداشتہ ہوں گا مگر مجھ کو معلوم نہ تھا کہ جب حضرت کا دل وطن کی اقامت کو چاہتا ہے حسب قول مولانا ۔ تو چنیں خواہی خدا خواہد چنیں می دہد یزدان مراد متقیں ضرور دل برادشتہ ہوگا چنانچہ چند ہی روز میں بلا کسی سبب ظاہری کے قیام کانپور سے وحشت ہوئی اور وطن کا عزم کیا لیکن یہ اندیشہ تھا کہ مدرسہ نہ ٹوٹ جاوے اس لئے میں نے اس کے بقاء و استحکام کا خاص انتظام کیا وہ یہ کہ اول قلت آمدنی مدرسہ کے بہانہ سے تنخواہ چھوڑی پھر اپنا لقب مدرس اول سے سر پرست مدرسہ رکھا اور مدرس دوم کو مدرس اول بنایا اور میں مدرسہ کا جو انتظامی کام مدرس اول ہونے کی حالت میں کرتا تھا وہ جدید مدرس اول کے سپرد کیا اور میں نے کہا کہ دستخط میرے نام کے ہوا کریں ۔ انتظامی کام اس طرح چلتا رہا پھر خیال ہوا کہ میرے جانے سے میرے اسباق متعلقہ میں خلل نہ پڑے ۔ مدرسہ میں طلبہ کی ایک جماعت ایسی تھی کہ جن کی کتابیں ختم ہونے والی تھیں ان کے اسباق اپنے متعلق کر لئے کیونکہ ان کی کتابیں ختم ہونے کے بعد ان اسباق کا سلسلہ ہی بند ہو جاوے گا جب کتابیں ختم ہوگئیں میں نے مدرسہ والوں سے کہا کہ میں رخصت پر وطن جا کر چندے آرام کروں گا ۔ اور یہ سب انتظام سب سے مخفی کر کے اور کام کے سب شعبوں کو بدون اپنے دخل کے چلتا ہوا دیکھ کر مطمئن ہو کر وطن روانہ ہوگیا وطن کا اتنا اشتیاق تھا کہ جس وقت گاڑی چھٹی تو اس وقت یہ معلوم ہوتا تھا کہ اللہ کا شکر ہے کہ جیل خانہ سے چھٹی ملی ۔ پھر وطن پہنچ کر مدرسہ کی خبریں منگاتا رہا جب ہر پہلو سے مطمئن ہوگیا