دوسرا جواب یہ ہے کہ قصاص دوسری نص سے ثابت ہے وکتبنا علیھم فیھا ان النفس بالنفس والعین بالعین آیت سے ۔
وَاَمَّا الْمُقْتَضٰی فَزِیَادَۃٌ عَلَی النَّصِّ ثَبَتَ شَرْطًا لِصِحَّۃِ الْمَنْصُوْصِ عَلَیْہِ لِمَالَمْ یَسْتَغْنِ عَنْہُ فَوَجَبَ تَقْدِیْمُہٗ لِتَصْحِیْحِ الْمَنْصُوْصِ فَقَدِاقْتَضَاہُ النَّصُّ فَصَارَ الْمُقْتَضٰی بِحُکْمِہٖ حُکْمًا لِلنَّصِّ وَالثَّابِتُ بِہٖ یَعْدِلُ الثَّابِتَ بِدَلَالَۃِ النَّصِّ اِلَّاعِنْدَ الْمُعَارَضَۃِ بِہٖ
ترجمہ:-اور بہر حال مقتضی پس وہ زیادتی ہے نص پر جو ثابت ہوتی ہے منصوص علیہ کی صحت کے لیے شرط بن کر ، اس وجہ سے کہ منصوص علیہ اس (زیادتی) سے مستغنی نہیں ہے ، تو اس (زیادتی) کو مقدم کرنا واجب ہے منصوص کو صحیح قرار دینے کے لیے، پس اس (زیادتی) کا تقاضا کیا ہے نص نے ، تو مقتضی ہوجائے گا اپنے حکم کے ساتھ نص کا حکم، اور جو حکم مقتضی سے ثابت ہے وہ اس حکم کے برابر ہے جو ثابت ہے ، دلالت النص سے مگر دلالت النص سے ثابت ہونے والے حکم کے ساتھ تعارض کے وقت۔
------------------------------
تشریح:-چوتھی قسم ہے مقتضی،مقتضی کہتے ہیں ایسی زیادتی کو جو کلام منصوص علیہ میں شرط کے طور پر ثابت ہو،کیونکہ کلام منصوص علیہ اس سے مستغنی نہیں ہے ،بلکہ اس کا محتاج ہے،تو گویا نص خود اس کا تقاضا کرتی ہے کیونکہ اس کے بغیر نص کے معنی درست نہیں ہوتے شرعایا عقلا،تو وہ زیادتی نص کے لئے شرط کے درجہ میں ہوگئی، لہٰذا منصوص علیہ کلام کو صحیح کرنے کے لئے اس شرط کو یعنی زیادتی کو مقدم کرنا ضروری ہوا، کیونکہ شرط کی تقدیم مشروط پر ضروری ہے، پس مُقتَضٰی (وہ زیادتی ) اپنے حکم کے ساتھ مل کر نص کا حکم بنے گا۔
اس کی تفصیل یہ ہے کہ بعض مرتبہ نص یعنی کلام ِمنصوص علیہ شرعاً یا عقلاً تقاضا کرتا ہے کہ اس سے پہلے ایک زائد عبارت مقدر مانی جائے ورنہ وہ کلام صحیح نہیں ہوگا بلکہ لغو ہوجائے گا ،تو کلامِ منصوص علیہ کو لغو ہونے سے بچانے کے لئے اس زائد عبارت کو مقدر ماناجاتا ہے،اس زائد عبارت پر کلامِ منصوص علیہ کی صحت موقوف ہے تو وہ زیادتی کلام منصوص علیہ کے لئے شرط ہوگی کیوں کہ ہر وہ شی جس سے مستغنی نہ ہوا جاسکے وہ بمنزلہ شرط کے ہوتی ہے لہٰذا یہاں مقتضٰی بمنزلہ شرط ہے ، کیوں کہ نص اس سے مستغنی نہیں ہے، پس مقتضٰی شرط ہوا اور شرطِ شئی شئی پر مقدم ہوتی ہے، لہٰذا وہ زیادتی کلام منصوص علیہ پر مقدم ہوگی ،پھر یہ زائد عبارت جس کو مقتضی (اسمِ مفعول ) کہا جاتا ہے وہ اپنے حکم کے ساتھ نص کا حکم بنے گا یعنی اس کلام منصوص علیہ کی طرف منسوب ہوگا ۔