کے معانی معلوم ہیں ،لیکن ابہام اس محل میں ہے جس کے ساتھ یہ الفاظ متصل ہوتے ہیں اور جس محل کے اندر یہ الفاظ عمل کرتے ہیں ،پس اسی ابہام کی وجہ سے یہ الفاظ کنایات کے مشابہ ہوگئے ،پس نام رکھ دیا گیا ان الفاظ کا کنایات کے ساتھ مجازاً ، اور اسی ابہام کی وجہ سے نیت کی ضرورت پیش آتی ہے،پس جب ابہام نیت سے زائل ہوجائے گا تو واجب ہوگا عمل کرنا ان الفاظ کے مقتضیات پر،بغیر اس کے کہ ان الفاظ کو صریح سے عبارت قرار دیا جائے ،اور اسی وجہ سے کردیا ہم نے ان الفاظ کو بوائن ۔
------------------------------
تشریح:-مصنفؒ ایک سوال مقدرکا جواب دے رہے ہیں کہ حضرت !آپ نے فرمایا کہ کنایہ وہ ہے جس کی مراد پوشیدہ ہو،حالانکہ طلاق بائن کے الفاظ جن کو کنائی الفاظ کہا جاتا ہے جیسے بائن ،حرام ،بتۃ وغیرہ ان سب الفاظ کے معنی معلوم ہیں ،جیسے بائن بینونت سے ہے معنی جدا ہونا ،حرام حرمت سے ہے معنی روکنا ،بتۃ کے معنی کا ٹنا ،تو ان سب الفاظ کے معنی معلوم ہیں اور یہ الفاظ اپنے معنی میں استعمال بھی ہوتے ہیں، تو پھر ان کو کنایہ کیوں کہا جاتا ہے؟ فماالجواب
اس کا جواب دے رہے ہیں کہ ان الفاظ کو کنایہ مجازاً کہا جاتا ہے ،حقیقۃ کنایہ نہیں کہا جاتاہے ،کیونکہ ان کے معنی معلوم ہیں،اس میں کوئی ابہام نہیں ہے، البتہ یہ الفاظ جس محل میں استعمال ہوتے ہیں ،اور جس محل میں عمل کرتے ہیں اس محل میں ابہام ہے جیسے انت بائن ،تو جدا ہے ،اس کے معنی معلوم ہیں مگر یہ جس محل یعنی عورت میں استعمال ہوتے ہیں، اس میں ابہام آگیا کہ عورت جدا ہے تو کس سے جدا ہے ؟مال سے ،جمال سے یا شوہر سے ،لہٰذا یہ الفاظ محل کے ابہام کی وجہ سے حقیقۃ کنایہ کے مشابہ ہوگئے، اس لئے مجازاً ان کو کنایہ کہہ دیا گیا ،لہٰذا جب محل کے لحاظ سے ابہام آگیا تو اب نیت کی ضرورت پڑے گی ،جب شوہر نے نیت کرلی کہ میری مراد خوداپنے سے جداکرناہے تو نیت سے ابہام دور ہوگیا ،اب یہ الفاظ اپنے مقتضی کے مطابق عمل کریں گے یعنی ان سے طلاق بائن واقع ہوگی ،کیونکہ ان الفاظ کا مقتضی اور مدلول (کانٹا ، جدا ہونا وغیرہ) طلاق بائن ہی ہے ،طلاق رجعی نہیںہے ۔
بہرحال ان الفاظ میں محل کے لحاظ سے ابہام آگیا ،تو ان کو مجازاً کنایہ کہہ دیا ،اسی لئے نیت کے بعد یہ الفاظ خود اپنے مقتضی کے مطابق عمل کرتے ہیں ،ایسا نہیں ہے کہ ان الفاظ کو حقیقۃ ً کنایہ بنایا گیا ہو، کیونکہ اگر حقیقۃ کنایہ ہوتے تو صریح طلاق سے کنایہ ہوتے اور طلاق رجعی واقع ہوتی یعنی حقیقۃ کنایہ ہوتے تو انت بائن بولکر انت طالق مراد ہوتا اور اس سے طلاق رجعی واقع ہوتی ،من غیران یجعل عبارۃ عن الصریح سے یہی بات کہہ رہے ہیں کہ ان الفاظ میں جب نیت سے ابہام دور ہوگیا تو یہ الفاظ اپنے مقتضی پر عمل کرینگے ،بغیر اس کے کہ ان الفاظ کو صریح طلاق سے کنایہ کیا جائے ،اسی لئے ہم نے ان الفاظ کو بائن قرار دیا ۔انتہی