،حالانکہ لحم میں وضع کے اعتبار سے مچھلی بھی داخل ہے مگر لفظ کے مادے کی دلالت کی وجہ سے وہ خارج ہوجائے گی ،اور مچھلی کے علاوہ باقی خون والے حلال جانوروں کا گوشت اس میں داخل رہے گا۔
دوسری مثال کسی نے قسم کھائی کہ وہ فاکھہ نہیں کھائے گا ،اگر اس نے انگور کھالی تو حانث نہ ہوگا کیونکہ لفظ فاکہہ مادہ کے اعتبار سے دلالت کرتا ہے ایسی چیز پر جس میں فرحت ولذت ہو ،یعنی جو چیز فرحت ولذت کے طور پر کھائی جائے ،اس میں غذائیت اور بدن کا قوام نہ ہو،__اور انگور میں فرحت ولذت کے ساتھ غذائیت بھی ہے ،تو فاکہہ کے معنی انگور میں زیادتی کے ساتھ پائے گئے ،لہٰذا امام ابو حنیفہ ؒ کے نزدیک حانث نہ ہوگا ،صاحبین کے نزدیک حانث ہوجائے گا ،تفصیل کے لئے ہدایہ کی مراجعت کریں ۔
بہر حال مچھلی میں لحم کے معنی کمی کے ساتھ پائے جارہے ہیں اور انگور میں فاکہہ کے معنی زیادتی کے ساتھ پائے جارہے ہیں ،لہٰذا مچھلی لحم میں اور انگور فاکہہ میں داخل نہ ہوگی ،لہٰذا گوشت نہ کھانے کی قسم کھانے والا مچھلی کا گوشت کھانے سے اور فاکہہ نہ کھانے کی قسم کھانے والا انگور کھانے سے امام صاحب کے نزدیک حانث نہ ہوگا ، اور صاحبین کے نزدیک حانث ہوجائے گا۔
مشائخ نے لکھا ہے کہ امام صاحب اور صاحبین کا یہ اختلاف عرف وزمان کے اختلاف کی وجہ سے ہے ، امام صاحب نے اپنے زمانے اور عرف کے اعتبار سے فتویٰ دیا ہے ، اور صاحبین نے اپنے زمانے کے عرف کے لحاظ سے ، صاحبین کے زمانے میں عرف بدل گیا تھا۔
تنبیہ:یمین کا مدار عرف پر ہے ، لہٰذا ہر علاقہ کے عرف کے اعتبار سے حکم ہوگا ، اگر کسی علاقہ میں مچھلی کے گوشت پر گوشت کا اطلاق ہوتا ہے ، اور عام عرف یہی ہے تو مچھلی کے گوشت سے حانث ہوجائے گا۔
وَاَمَّا الصَّرِیْحُ فَمِثْلُ قَوْلِہٖ بِعْتُ وَاشْتَرَیْتُ وَوَھَبْتُ وَحُکْمُہٗ تَعَلُّقُ الْحُکْمِ بِعَیْنِ الْکَلَامِ وَقِیَامُہٗ مَقَامَ مَعْنَاہٗ حَتّٰی اسْتَغْنٰی عَنِ الْعَزِیْمَۃِ لِاَنَّہٗ ظَاھِرُ الْمُرَادِ وَحُکْمُ الْکِنَایَہِ اَنَّہٗ لَایَجِبُ الْعَمَلُ بِہٖ اِلَّابِالنِّیَّۃِ لِاَنَّہٗ مُسْتَتِرُالْمُرَادِ وَذٰلِکَ مِثْلُ الْمَجَازِ قَبْلَ اَنْ یَّصِیْرَ مُتَعَارَفًا
ترجمہ:-او ر بہرحال صریح پس جیسے اس کا قول بِعْتُ،اشتریت اور وھبت اور صریح کا حکم حکم کا متعلق ہونا ہے عین کلام کے ساتھ اور کلام کااپنے معنی کے قائم مقام ہونا ہے ،یہاں تک کہ صریح نیت سے بے نیاز ہوگا اس لئے کہ اس کی مراد ظاہر ہے،اور کنایہ کا حکم یہ ہے کہ اس پر عمل واجب نہیں ہوگا مگر نیت سے، اس لئے کہ اس کی مراد پوشیدہ ہے