کے اعتبار سے اور تحریر (آزاد کرنا)ہے اپنے حکم کے اعتبار سے۔
تشریح:-مصنفؒدوسرے اعتراض کا جواب دے رہے ہیں کہ حضرت!نذر والا مسئلہ سمجھئے ،للہ علی ان اصوم رجبا، اس میں ہم نے حقیقت ومجاز کو جمع نہیں کیا ہے بلکہ اس کلام کے حقیقی معنی ہی مراد لئے ہیں ،اور اس کے حقیقی معنی نذر ہیں جو اس کے صیغہ سے ثابت ہورہے ہیں اوررہ گئی یمین تو یمین بھی اس کلام سے ثابت ہوجاتی ہے ،لیکن اس لئے نہیں کہ اس کے مجازی معنی ہیں بلکہ یمین کا ثبوت اس کلام کے حکم اور مقتضی سے ہورہا ہے،اور اس کلام کا حکم ایجاب ہے یعنی کسی چیز کو واجب کرنا، چونکہ قائل ایک مباح چیز کو اپنے اوپر واجب کررہا ہے ،کیونکہ رجب کا روزہ اس پر واجب نہیں ہے، پس مباح چیز کو واجب کرنا یہ یمین ہے جیسے مباح چیز کو حرام کرنا یمین ہے ،قد فرض اللہ لکم تحلۃ ایمانکم دلیل ہے،تو یمین کا ثبوت اس کلام کے حکم سے ہوا،نہ کہ ایک ہی لفظ سے حقیقت ومجاز کا اجتماع ہورہا ہے جو ممنوع ہے۔
خلاصہ یہ ہوا کہ نذر تو اس کلام کے صیغہ سے ثابت ہوئی جو اس کے حقیقی معنی ہیں، اور یمین کا ثبوت اس کلام کے حکم اور مقتضی سے ہوا،اور اس میں کوئی قباحت نہیں ہے تو اس طرح نذر اور یمین دونوں جمع ہوئے ،لہٰذا آپ جمع بین الحقیقت والمجاز کا اعتراض نہیں کرسکتے ۔
اس کی نظیر سمجھو ،جیسے کسی نے اپنے قریبی رشتہ دار کو خریدا تو وہ فوراً آزاد ہوجائے گا حالانکہ شراء (خریدنے)سے ملک ثابت ہوتی ہے نہ کہ تحریر (آزادی)۔
تو یہاں بھی وہی بات ہے کہ شراء کے صیغہ سے تو ملک کا ثبوت ہورہا ہے اور شراء کے حکم سے تحریر ثابت ہورہی ہے،شراء کا حکم ہے ملک مع القرابۃ یعنی قریبی رشتہ دار کا مالک بننا اور قریبی رشتہ دار کے ملک سے آزادی ثابت ہوجاتی ہے حدیث کی رو سے من ملک ذار حم محرم منہ عتق -تو شراء کے صیغہ سے تملک ہوا اور اس کے حکم سے تحریر ہوئی ۔
وَمِنْ حُکْمِ ھٰذَاالْبَابِ اَنَّ الْعَمَلَ بِالْحَقِیْقَۃِمَتٰی اَمْکَنَ سَقَطَ الْمَجَازُلِاَنَّ الْمُسْتَعَارَلَایُزَاحِمُ الْاَصْلَ فَاِنْ کَانَتِ الْحَقِیْقَۃُ مُتَعَذَّرَۃًکَمَااِذَاحَلَفَ لَایَاکُلُ مِنْ ھٰذِہٖ النَّخْلَۃِاَوْمَھْجُوْرَۃًکَمَااِذَا حَلَفَ لَایَضَعُ قَدَمَہٗ فِیْ دَارِفَلَانٍ صِیْرَاِلَی الْمَجَازِ
ترجمہ:-اور اس باب کا حکم یہ ہے کہ حقیقت پر عمل کرنا جب تک ممکن ہو تومجاز ساقط ہوجائے گا ،اس لئے کہ