عَلَی الْفِعْلِ فَاِذَاتَمَّ الْاِکْرَاہُ بَطَلَ حُکْمُ الْفِعْلِ عَنِ الْفَاعِلِ وَتَمَامُہٗ اَنْ یُجْعَلَ عُذْرًا یُبِیْحُ لَہُ الْفِعْلُ فَاِنْ اَمْکَنَ اَنْ یُنْسَبَ اِلَی الْمُکْرِہِ نُسِبَ اِلَیْہِ وَاِلَافَبَطَلَ اَصْلًا وَقَدْ ذَکَرْنَا نَحْنُ اَنَّ الْاِکْرَاہَ لَایُعْدِمُ الْاِخْتِیَارَ لٰکِنَّہٗ یَنْتَفِی بِہٖ الرِّضَاءُ اَوْیَفْسُدُ بِہِ الْاِخْتِیَارُ اِلٰی اٰخِرِمَاقَرَّرْنَاہٗ ۔
ترجمہ :-اور اسی وجہ سے ہم نے کہا کہ جس شخص کو قتل پر مجبور کیاگیا وہ گنہگار ہوگا،اس لئے کہ قتل اس حیثیت سے کہ وہ گناہ کو واجب کرتا ہے قاتل کے دین پر جنایت ہے،اور قاتل اس میں اپنے غیر کا آلہ بننے کی صلاحیت نہیں رکھتا ہے،اور اگر اس کو دوسرے کے لئے آلہ بنایا گیا تو محلِ جنایت بدل جائے گا۔
اور ایسے ہی ہم نے کہا اس شخص کے بارے میں جس کو بیع اور تسلیم پر مجبور کیاگیا ہو کہ اس کی تسلیم اسی پر منحصر رہے گی،اس لئے کہ تسلیم اپنی بیع میں تصرف ہے اتمام کے ذریعہ،اور مکرَہ اتمام کے اندر دوسرے کے لئے آلہ بننے کی صلاحیت نہیں رکھتا ہے،اور اگر مکرَہ کو دوسرے کے لئے آلہ بنادیا گیا تو محل بدل جائے گا،اور فعل کی ذات بدل جائے گی،اس لئے کہ تسلیم اس وقت محض غصب ہوجائے گی،اور ہم نے تسلیم کو مکرَہ کی طرف منسوب کیا ہے غصب ہونے کی حیثیت سے۔
اور جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ مکرَہ سے مکرِہ کی طرف فعل کا منتقل ہونا امرِ حکمی ہے جس کی طرف ہم نے رجوع کیا ہے، تو یہ انتقال اس فعل میں درست ہوگاجو معقول ہو،اور حسی نہ ہو،پس ہم نے کہا کہ جس شخص کو اعتاق پر اکراہ کیا گیا ہو ایسی چیز کے ساتھ جس میں الجاء ہو،تو مکرَہ ہی تکلم کرنے والا ہوگا،اور اتلاف کے معنی مکرَہ سے اس شخص کی طرف منتقل ہوں گے جس نے اس کو مجبور کیا ہے،اس لئے کہ اتلاف فی الجملہ اعتاق سے جدا ہوجاتا ہے، اپنی اصل کے ساتھ نقل کا متحمل ہے،اور یہ ہمارے نزدیک ہے،اور امام شافعیؒ نے کہا کہ مکرَہ کے تمام قولی تصرفات لغو ہیں،جب کہ اکراہ ناحق ہو،اس لئے کہ قول کی صحت قصد واختیار سے ہوتی ہے ،تا کہ قول ترجمہ ہوجائے اس چیز کا جو دل میں ہے،تو قصد واختیار کے عدم کے وقت قول باطل ہوجائے گا،اور اکراہ بالجس اکراہ بالقتل کے مانند ہے امام شافعیؒ کے نزدیک ، اور جب اکراہ فعل پر واقع ہوتو جب اکراہ تام ہوگا تو فاعل سے فعل کا حکم باطل ہوجائے گا،اور اکراہ کی تمامیت یہ ہے کہ اکراہ کو ایسا عذر قرار دیاجائے جو مکرہ کے لئے فعل کو مباح کردے ،پس اگر ممکن ہو کہ فعل کو مکرِہ کی طرف منسوب کیا جائے تو اس کی طرف منسوب کردیا جائے گا ورنہ تو فعل بالکل باطل ہوجائے گا،اور ہم ذکر کرچکے ہیں کہ اکراہ اختیار کو معدوم نہیں کرتا ہے لیکن اس کی وجہ سے رضا منتفی ہوجاتی ہے یا اس کی وجہ سے اختیار فاسد ہوجاتا ہے،جن کی تمام