گا،اور اس فعل کی جنایت کاتاوان فاعل یعنی مکرَہ (بالفتح)پر ہی لازم ہوگا،اس میں مکرَہ کو مکرِہ کے لئے آلہ نہیں بنایا جائے گا،کیونکہ آلہ بنانے کی صورت میں محلِ جنایت بدل جائے گا، اس طرح کہ مکرِہ نے مکرَہ کواس بات پر مجبور کیا ہے کہ وہ اپنے احرام پر جنایت کرے،اور مکرَہ اپنے احرام پر جنایت کرنے میں دوسرے کا آلہ نہیں بن سکتا ،کیونکہ اگر مکرِہ کے لئے آلہ بنایا گیا تومکرَہ کا فعل جنایت مکرِہ کی طرف منتقل ہوجائے گا،اس لئے کہ آلہ کی طرف فعل منسوب نہیں ہوتاہے، تو یہ ایساہوجائے گا گویا مکرِہ نے مکرَہ کے احرام پر جنایت کی،حالانکہ یہ بات ناممکن ہے کہ انسان دوسرے کے احرام پر جنایت کرے،انسان اپنے احرام پر تو جنایت کرسکتا ہے، دوسرے کے احرام پر نہیں کرسکتا ، بہر حال مکرَہ کو آلہ قرار دینے میں جنایت کا محل مکِرہ کا احرام ہوجائے گا،اور مکرِہ کے احرام کو محل جنایت قرار دینے میں مکرِہ کے مدعی کے خلاف لازم آئے گاکیونکہ مکرِہ نے تو مکرَہ کو اس کے احرام پرجنایت کا حکم دیاتھا،اور یہاں محل بدل گیا، تو مکرِہ کے مدعی کے خلاف ہوااور جب مکرِہ کے حکم کے خلاف ہوا تو اکراہ ہی باطل ہوگیا،اور جب اکراہ باطل ہوگیا تو گھوم پھر کر حکم مکرہ کی طرف ہی پلٹ کر آئے گا،تو خواہ مخواہ لمبی کرنے میں کوئی فائدہ نہیں ہے،اس لئے ہم نے ابتدا ء ً ہی کہا کہ یہ فعل مکرَہ کی طرف منسوب ہوگا۔
وَلِھٰذَا قُلْنَا اِنَّ الْمُکْرَہَ عَلَے الْقَتْلِ یَأثِمُ لِاَنَّہٗ مِنْ حَیْثُ اَنَّہٗ یُوْجِبُ الْمَأثِمَ جِنَایَۃً عَلٰی دِیْنِ الْقَاتِلِ وَھُوَلَا یَصْلَحُ فِیْ ذٰلِکَ اٰلَۃً لِغَیْرِہٖ وَلَوْ جُعِلَ اٰلَۃً لِغَیْرِہٖ لَتَبَدَّل مَحَلُّ الْجِنَایَۃِ وَکَذٰلِکَ قُلْنَا فِی الْمُکْرَہِ عَلَی الْبَیْعِ وَالتَّسْلِیْمِ اَنَّ تَسْلِیْمَہٗ یَقْتَصِرُ عَلَیْہِ لِاَنَّ التَّسْلِیْمَ تَصَرُّفٌ فِیْ بَیْعِ نَفْسِہٖ بِالْاِتْمَامِ وَھُوَ فِیْ ذٰلِکَ لَایَصْلَحُ اٰلَۃً لِغَیْرِہٖ وَلَوْجُعِلَ الْمُکَرَہُ اٰلَۃً لِغَیْرِہٖ لَتَبَدَّلَ الْمَحَلُّ وَلَتَبَدَّلَ ذَاتُ الْفِعْلِ لِاَنَّہٗ حِیْنَئِذٍ یَصِیْرُ غَصْبًا مَحْضًا وَقَدْ نَسَبْنَاہُ اِلٰی الْمُکْرَہِ مِنْ حَیْثُ ھُوَ غَصْبٌ وَاِذَا ثَبَتَ اَنَّہٗ اَمْرٌ حُکْمِیٌّ صِرْنَا اِلَیْہِ اِسْتَقَامَ ذٰلِکَ فِیْمَا یُعْقَلُ وَلَایُحَسُّ فَقُلْنَا اِنَّ الْمُکْرَہَ عَلَی الْاِعْتَاقِ بِمَا فِیْہِ اِلْجَاءٌ ھُوَ الْمُتَکَلِّمُ وَمَعْنَی الْاِتْلَافِ مِنْہٗ مَنْقُوْلٌ اِلَی الَّذِیْ اَکْرَھَہٗ لِاَنَّہٗ مُنْفَصِلٌ عَنْہٗ فِی الْجُمْلَۃِ مُتَحَمِّلٌ لِلنَّقْلِ بِاَصْلِہٖ وَھٰذَا عِنْدَنَا وَقَالَ الشَّافِعِیُؒ تَصَرُّفَاتُ الْمُکْرَہٖ قَوْلًا تَکُوْنُ لَغْوًا اِذَا کَانَ الْاِکْرَاہُ بِغَیْرِ حَقٍّ لِاَنَّ صِحَّۃَ الْقَوْلِ بِالْقَصْدِ وَالْاِخْتِیَارِ لِیَکُوْنَ تَرْجَمَۃً عَمَّا فِی الضَّمِیْرِ فَیَبْطُلُ عِنْدَ عَدَمِہٖ وَالْاِکْرَاہُ بِالْحَبْسِ مِثْلُ الْاِکْرَاہِ بِالْقَتْلِ عِنْدَہٗ وَاِذَا وَقَعَ الْاِکْرَاہٗ