اکراہِ کامل کے ساتھ مردار، شراب اور خنزیر میں کوئی ممانعت نہیں ہے،اور اکراہِ کامل میں کلمۂ کفر زبان پر جاری کرنے کی،اور نماز اور روزہ کو فاسد کرنے کی ،اور غیر کا مال ضائع کرنے کی ،اور احرام پر جنایت کرنے کی،اور عورت کے لئے زنا پر قدرت دینے کی رخصت دے دی گئی ہے،اور عورت کا فعل مرد کے فعل سے جدا ہے رخصت کے سلسلہ میں،اس لئے کہ ولد کی نسبت عورت سے منقطع نہیں ہوتی ہے، تو عورت کا مرد کو زنا پر قدرت دینا قتل کے معنی میں نہیں ہے،برخلاف مرد کے،اور اسی وجہ سے اکراہ ِقاصر عورت سے حد دفع کرنے میں شبہ کو ثابت کرے گانہ کہ مرد سے حددفع کرنے میں،پس ان تمام تفصیلات سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ اکراہ تمام اقوال وافعال میں سے کسی چیز کو باطل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ہے،مگر ایسی دلیل سے جو اس کو بدل دے غیر مُکرہ کے فعل کے مثل،اور اکراہ کا اثر ظاہر ہوگاجب کہ اکراہ کامل ہوجائے نسبت کی تبدیلی میں،اور اکراہ کا اثر ظاہر ہوگاجب کہ اکراہ قاصر ہورضا کو فوت کردینے میں،پس اکراہ کی وجہ سے وہ فعل فاسد ہوگا جو فسخ کا احتمال رکھتا ہے،اور رضا پر موقوف ہوتا ہے، جیسے بیع اور اجارہ ،اور تمام اقرار صحیح نہ ہوںگے،اس لئے کہ اقار یر کی صحت مخبربہ کے قیام کا تقاضہ کرتی ہے،اور مخبربہ کے نہ ہونے کی دلیل قائم ہے،اور جب اکراہ متصل ہوجائے قبولِ مال کے ساتھ خلع میں تو طلاق واقع ہوجائے گی،اور مال واجب نہ ہوگا،اس لئے کہ اکراہ سبب اور حکم دونوں سے رضا کو معدوم کردیتا ہے،اور مال معدوم ہوجاتا ہے رضا نہ ہونے کے وقت، تو گویا کہ مال مذکور ہی نہیں ہوا تو طلاق بغیر مال کے واقع ہوگی،جیسا کہ صغیرہ کو مال پر طلاق دینا،برخلاف ہزل کے ،اس لئے کہ ہزل رضا بالحکم سے مانع ہے نہ کہ رضا بالسبب سے تو ہزل خیار ِشرط کے مانند ہے جیسا کہ پہلے گذرا۔
------------------------------
تشریح :-عوارض مُکْتَسبَہ میں سے ساتواں اور آخری عارض اکراہ ہے،اکراہ کہتے ہیں انسان کو کسی ایسے کام پرمجبور کرنا جسے وہ کرنا نہ چاہتا ہو،اگر اس کو مجبور نہ کیا جاتا تو وہ کام نہ کرتا ،پھر اکراہ کی دوقسمیں ہیں،(۱)اکراہِ کامل(۲)اکراہ ِقاصر ، اکراہِ کامل یہ ہے کہ جان یا عضو کے تلف کرنے کی دھمکی دیکر مجبور کیا جائے،یہ اکراہ اختیار کو فاسد کردیتا ہے اور اضطر ارکو واجب کرتا ہے یعنی مُکرَہ اس کا م کے کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے،اور اکراہ ِقاصر یہ ہے کہ اس میں مارپیٹ یاقید وبند کی دھمکی دیکر جبر کیاجائے ،اکراہ کی یہ قسم اختیار کو فاسد نہیں کرتی ہے،یعنی اختیار تو باقی رہتا ہے البتہ اس فعل پر رضا مندی نہیں ہوتی،__اکراہ کی ایک تیسری قسم بھی ہے جس کو مصنف نے بیان نہیں کیا،اس لئے کہ اس سے احکام متعلق نہیں ہیں،وہ یہ ہے کہ ماں باپ یا بیوی یا لڑکے کو قید کرنے کی دھمکی دیکر مجبور کیاجائے،اکراہ کی اس قسم میں نہ اختیار فاسد ہوتا ہے نہ رضا معدوم ہوتی ہے۔
مصنفؒ کہتے ہیں کہ اکراہ چاہے جس قسم کا ہو، نہ تو اہلیتِ وجوب کے منافی ہے، اور نہ اہلیتِ ادا کے منافی ہے،اور نہ کسی حال میں خطابِ خد اوندی ساقط کرتا ہے،کیونکہ اس حالت میں عقل باقی رہتی ہے، اور مُکرَہ ابتلا اور