سفیہ کو اسی کے نفع کے پیش نظر محجور قرار دیا جائے گا،صاحبین کے نزدیک جیسے صبی اور مجنون کا حکم ہے، لہٰذا صاحبین کے نزدیک سفیہ کی بیع اجارہ، اور ہبہ وغیرہ وہ تصرفات جن میں احتمال نقض ہیں وہ نافذنہ ہوں گے، کیونکہ ان تصرفات میں اگر اس کو محجور نہ قرار دیا گیا ،تو ان تصرفات کے ذریعہ وہ اپنا مال بیجا خرچ کربیٹھے گا جس کے بعد وہ دوسرے مسلمانوں پر بوجھ بن جائے گا اور اپنے مصارف کے لئے بیت المال کا محتاج ہوگا۔
بہرحال امام صاحب کے نزدیک اس کو محجور نہیں قرار دیا جاتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ سفاہت جنون وغیرہ کی طرح امرِ سماوی نہیں ہے ،بلکہ امرِ کسبی ہے ،بلکہ یہ تو معصیت ہے، کیونکہ سفیہ خواہشاتِ نفسانی کے غلبہ کی وجہ سے ایک معاملہ کے فساد اور اس کی قباحت کو جانتے ہوئے بھی اس پر عمل کرکے عقل سے دشمنی اور مخالفت کررہا ہے ،تو یہ شفقت ونظر اور رحم وکرم کا مستحق نہیں ہے، اس لئے وہ ان معاملات میں محجور بھی نہ ہوگا بلکہ اس کا تصرف نافذ سمجھا جائے گا۔
اس پر ایک سوال پیدا ہوگا کہ جب سفیہ نظر وشفقت کا مستحق نہیں ہے تو سفیہِ مُبذِّر سے پچیس سال تک اس کا مال کیوں روکا جاتا ہے، اس کے حوالہ کیوں نہیں کیا جاتا؟
اس کا جواب یہ ہے کہ اس کا ثبوت قران کریم سے ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’وَلَاتُؤتُوا السَّفَھَاءَ اَمْوَالَکُمُ الَّتِی جَعَلَ اللہُ لَکُمْ قِیَامًا‘‘ سفہاء کو ان کا اپنا مال یعنی وہ مال جو تمہارے پاس ہے نہ دو، پھر جب تم ان میں سمجھداری محسوس کرو تو انہیں ان کا مال دیدو، الغرض سفیہ سے مال کو روکنا قران سے ثابت ہے، یہ حکم یا تو بطور عقوبت کے ہے یعنی تبذیر اور فضول خرچی معصیت اور عقل سے دشمنی ہے تو سزا کے طور پر اس کا مال روک لیا گیا، یا غیر معقول المعنی ہے، کیونکہ مالک سے اس کی عقل وتمیز کے باوجود مال کوروک لینا خلافِ عقل وقیاس ہے، لہٰذا جب مال کو روک لینا بطور سزا کے ہے یا غیر معقول المعنی ہے ،تو اس پر دوسرے کو قیاس نہیں کرسکتے، کیونکہ قیاس کی شرائط میں ہے کہ مقیس علیہ معقول المعنی ہو، لہٰذا سفیہ پر حجر نہیں ہوگا۔
وَاَمَّا الْخَطَأُ فَھُوَ نَوْعٌ جُعِلَ عُذْرًا صَالِحًا لِسُقُوْطِ حَقِّ اللہِ تَعَالٰی اِذَا حَصَلَ عَنْ اِجْتِھَادٍ وَشُبْھَۃً فِی الْعُقُوْبَۃِ حَتّٰی قِیْلَ اِنَّ الْخَاطِئَ لَایَأثِمُ وَلَایُؤَاخَذُ بِحَدٍّ وَلَا قِصَاصٍ لٰکنَّہٗ لَایَنْفَکُّ عَنْ ضَرْبِ تَقْصِیْرٍ یَصْلَحُ سَبَبًا لِلْجَزَاءِ الْقَاصِرِ وَھُوَ الْکَفَّارَۃُ وَصَحَّ طَلَاقُہٗ عِنْدَنَا وَیَجِبُ اَنْ یَنْعَقِدَ بَیْعُہٗ کَبَیْعِ الْمُکْرَہِ وَاَمَّا السَّفَرُ فَھُوَ مِنْ اَسْبَابِ التَّخْفِیْفِ یُؤَثِّرُ فِیْ قَصْرِ ذَوَاتِ الْاَرْبَعِ وَفِیْ تَاخِیْرِ الصَّوْمِ لٰکِنَّہٗ لَمَّاکَانَ مِنَ الْاُمُوْرِ الْمُخْتَارَۃِ وَلَمْ یَکُنْ مُوْجِبًا ضَرُوْرَۃً لِازِمَۃً قِیْلَ اِنَّہٗ اِذَا اَصْبَحَ