گواہ اور قسم پر فیصلہ کرنے کا فتوی۔
------------------------------
تشریح :-مصنفؒ عوارض سماوی کے بیان سے فارغ ہوکر اب عوارض مُکْتَسبَہ کو بیان کررہے ہیں، عوارض مُکْتَسبَہ (کسب کردہ عوارض ) ان عوارض کو کہتے ہیں جن کے حصول میں بندے کے فعل کو دخل ہوتا ہے، عوارض مکتسبہ میں پہلا عارض جہل ہے، جو علم کی ضد ہے، انسان کے اندر جہل اصل ہونے کے باوجود اس کو عوارض میں اس لئے شمار کیا کہ جہل انسان کی ماہیت سے خارج ہے، اور جو چیز حقیقت سے خارج ہو ، وہ عارض ہوتی ہے ، لہٰذا علم ، جہل صفاتِ عارض ہیں ، اور مکتسبہ میں اس لئے شمار کیا کہ بندہ کسب ِعلم کے ذریعہ جہل کو دور کرسکتا ہے، اس کا تحصیل علم کوترک کرنا گویا اختیار سے جہل کا کسب ہے۔
پھر جہل چار طرح کا ہے (۱)پہلی قسم کفار کا جہل جو بلاشبہ باطل ہے، کفر بہت بڑا جہل ہے، جو آخرت میں کسی طرح عذر نہیں ہوسکتا، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور حضور ﷺ کی رسالت کے واضح دلائل کے بعد کفر کرنا ہٹ دھری، ضد اور جانتے ہوئے انکار کرنا ہے، دنیوی احکام میں اگرچہ اس کافر کے ذمی ہونے کو قبول کرلینے سے اس کے قتل، حبس وغیرہ دنیوی عذاب کو دفع کرنے میں اس جہل (کفر)کو عذر تسلیم کرلیا جاتا ہے، مگر آخرت میں کسی طرح کفر عذر نہیں ہوسکتا۔
(۲)دوسری قسم صاحب ہوی (عقل پرست) کا اللہ تعالیٰ کی صفات اور آخرت کے بارے میں جہل ہے جیسے معتزلہ اللہ کی صفات کا انکار کرتے ہیں عذاب ِقبر، رؤیت باری تعالیٰ اور شفاعت، میزان وغیرہ کا انکار کرتے ہیں، حالانکہ اس پر واضح دلائل موجود ہیں، اسی طرح باغی کا جہل جو واضح دلائل کو چھوڑکر فاسد اور مہمل تاویلات سے استدلال کرتے ہوئے امام برحق کی اطاعت سے نکل جاتے ہیں، جیسے خوارج نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بغاوت کی ، اپنے آپ کو برحق سمجھتے ہوئے ، توان کا جہل بھی آخرت میں عذر نہیں ہے، مگر چونکہ اہل ہوی اور باغی قران سے تاویل کرتے ہیں، اس لئے ان کا جہل جہلِ کفر سے کم درجہ کا ہوگا، اور یہ لوگ مسلمان ہیں جب کہ جہل میں غلو کرکے حد تجاوزی نہ کریں ، یا اپنے آپ کو اسلام کی طرف منسوب کرتے ہیں، حقیقت میں اسلام سے خارج ہیں، جب کہ غلو اور حد تجاوری کرتے ہوں، تو ایسے لوگوں سے مناظرہ کرنا اور شرعی دلائل سے ان کو الزام دینا ہم پر لازم ہے، ہم ان کی فاسد تاویلات کو قبول نہیں کریں گے__ اسی لئے فقہاء کہتے ہیں کہ اگر کسی باغی نے امام کے مطیع اور وفادار لوگوں میں سے کسی کا مال یا جان تلف کردی، اور تاویل یہ کی کہ گناہ کبیرہ کے ارتکاب سے وہ کافر ہوگیا، لہٰذا اس کا مال اور جان کو تلف کرنا حلال ہوگیا، جیسے کہ معتزلہ کا عقیدہ ہے کہ گناہ کبیرہ کے ارتکاب سے آدمی اسلام سے خارج ہوجاتاہے،تو اس فاسد تاویل سے اس کی جان ومال کو مباح نہیں قرار دیں گے بلکہ اس پر جان ومال کا ضمان آئے گا، اسی طرح اس