بعض حصہ ساقط ہوگیاتو علت کا نصف حصہ پایا گیا، پس عتق علت کی تکمیل تک موقوف رہے گا اور یہ (اسقاط ملک) ایسا ہوگیا جیسے اعضاء کا غَسْل(علت ہے ) نماز کی ادائیگی کی اباحت کے لئے، اور جیسے طلاق کے اعداد (علت ہیں)تحریم کے لئے،اور یہ رقیت مال کی مالکیت کے منافی ہے مال ہونے کی حیثیت سے مملوکیت کے قائم مقام ہونے کی وجہ سے ،یہاںتک کہ غلام اور مکاتب (جماع کے لئے)تَسرّی(باندی رکھنے ) کے مالک نہ ہوں گے، اور ان دونوں کی جانب سے اسلام کافر یضیۂ حج صحیح نہ ہوگااصلِ قدرت کے نہ ہونے کی وجہ سے،اور قدرت وہ منافع بدنیہ ہیں ،اس لئے کہ منافع آقا کے لئے ہیں،مگر ان بدنی عبادات میںجن کا استثنا کردیاگیا۔
------------------------------
تشریح :-ساتواں عارض رقیت (غلام ہونا)ہے ،رقیت ایک عجز حکمی ہے،یعنی غلام بحکم شرع عاجزو مجبور ہے ،کسی طرح کے تصرفات کا مالک نہیں ہے ،غلامی ابتداء ً اوراصل وضع میں کفر کی سزا ہے اور اللہ تعالیٰ کا حق ہے،یعنی کفارنے اللہ تعالیٰ کی عبادت اور غلامی کو باعثِ عار سمجھا تو اس کی پاداش میں اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے غلاموں (مسلمانوں )کا غلام بنادیا،بہرحال غلامی ابتداء ً چونکہ کفر کی سزا ہے، اس لئے صرف کفارپر ثابت ہوتی ہے ،مسلمانوں پر ابتداء ًرقیت ثابت نہیں ہوسکتی ،لیکن رقیت بقاء ً حق العبد ہے اور ایک حکمی امر ہے یعنی سزا کے معنی کی رعایت کئے بغیر شریعت کے دیگراحکام کی طرح یہ بھی محض ایک حکم ِشرعی کے طور پر جاری ہوتی ہے ،اس غلامی کے سبب آدمی ذلت اور تملک کانشانہ بنا رہتا ہے ، حتی کہ غلام اگر مسلمان بھی ہوگیا تب بھی وہ غلام ہی رہے گا،جیسے خراج ابتداء ً مسلمان پر ثابت نہیں ہوتا ، البتہ بقاء ًثابت ہوتا ہے،یعنی خراجی زمین خریدی تو خراج علی حالہ باقی رہے گا۔
رقیت ایک ایسا وصف ہے جس میں تجزی نہیں ہوتی ،لہٰذا ایسا نہیں ہوسکتا ہے کہ انسان کا بعض حصہ غلام ہو،اور بعض حصہ آزاد ہو،کیونکہ رقیت کفر کی سزا ہے،اور کفر میں تجزی نہیں ہے ،ایسے ہی رقیت حق اللہ ہے،اور اللہ کے حق میں تجزی نہیں ہوتی ہے ،البتہ رقیت پر جو ملک مرتب ہوتی ہے یہ حق العبد ہے،اس میں تجزی ہوتی ہے ،لہٰذا ایک غلام کے آدھے آدھے حصے کے دو آدمی مالک ہوسکتے ہیں،آدمی اپنے غلام کے نصف حصہ کو بیچ سکتا ہے ۔
مصنف رقیت کے غیر متجزی ہونے پر جامع کبیر کا ایک جزئیہ پیش کرتے ہیں کہ اگر کوئی مجہول النسب غلام اقرار کرے کہ اس کا نصف حصہ فلاں کا غلام ہے ،تو اگر چہ فلاں کی ملکیت تو نصف میں ثابت ہوگی ،مگر غلام شہادت اور دیگر احکام میں کامل غلام شمار کیاجائے گا ،ایسا نہ ہوگا کہ آدھا غلام نہیں ہے،کیونکہ رقیت میں تجزی نہیں ہے ،اور ملک میں تجزی ہے ،اس لئے مقرلہ کے لئے نصف حصہ میں ملک ثابت ہوگی۔
پھر جس طرح رقیت میں تجزی نہیں ہے ،ایسے ہی عتق جو اس کی ضد ہے اس میں بھی تجزی نہیں ہے ،لہٰذا بعض حصہ آزاد ہو بعض حصہ آزاد نہ ہوایسا نہیں ہوسکتا ،اور صاحبین کے نزدیک اعتاق میں بھی تجزی نہیں ہوتی ،کیونکہ اعتاق