ہیں،اس میں اس کی صلاحیت نہیں ہے کہ اس کو علت کا خلیفہ قرار دیاجائے، اور فاعلِ علامت پر ضمان جاری کیاجائے ۔
قاضی ابوزید اور بعض متأخرین کا یہی مسلک ہے کہ احصان علامت ہے،اور عام متأخرین احصان کو شرط قرار دیتے ہیں،امام زفرؒ بھی اس کو شرط قرار دیتے ہیں،لہٰذا ان کے نزدیک شہودِ احصان پر ضمانِ دیت ہوگا ،لیکن ہم جواب دیںگے کہ اول تو یہ شرط نہیں بلکہ علامت ہے،اور علامت کی طرف حکم(رجم)منسوب نہ ہوگا اور اگر احصان کو شرط تسلیم بھی کرلیں تو بھی شہودِ احصان پر ضمانِ دیت نہ آئے گا کیونکہ یہاں رجم کی علت زنا موجود ہے جو صلاحیت رکھتی ہے کہ حکمِ رجم اس کی طرف منسوب کیا جائے ،اور جب علت صالح للحکم موجود ہے توعلت کے موجود ہوتے ہوئے شرط کی طرف حکم منسوب نہ ہوگا۔
فَصْلٌ اِخْتَلَفَ النَّاسُ فِی الْعَقْلُ اَھُوَ مِنَ الْعِلَلِ الْمُوْجِبَۃِ اَمْ لَا فَقَالَتِ الْمُعْتَزِلَۃُ اَلْعَقْلُ عِلَّۃٌ مُوْجِبَۃٌ لِمَا اِسْتَحْسَنَہٗ مُحَرِّمَۃٌ لِمَا اِسْتَقْبَحَہٗ عَلَی الْقَطْعِ وَالْبَتَاتِ فَوْقَ الْعِلَلِ الشَّرْعِیَّۃِ فَلَمْ یُجَوِّزُوْاَنْ یَثْبُتَ بِدَلِیْلِ الشَّرْعِ مَالَایُدْرِکْہٗ الْعَقْلُ اَوْیُقَبِّحُہٗ وَجَعَلُو الْخِطَابَ مُتَوَجِّھًا بِنَفْسِ الْعَقْلِ وَقَالُوْ الَاعُذْرَ لِمَنْ عَقَلَ صَغِیْرًا کَانَ اَوْکَبِیْرا فِی الوَقْفِ عَنِ الطَّلَبِ وَتَرْکِ الْاِیْمَانِ وَاِنْ لَمْ تَبْلُغْہٗ الدَّعْوَۃُ وَقَالَتِ الْاَشْعَرِیَّۃُ لَاعِبْرَۃَ بِالْعَقْلِ اَصْلًا دُوْنَ السَّمْعِ وَمَنْ اِعْتَقَدَ الشِّرْکَ وَلَمْ تَبْلُغْہٗ الدَّعْوَۃُ فَھُوَمَعْذُوْرٌ وَالْقَوْلُ الصَّحِیْحُ فِی الْبَابَ اَنَّ الْعَقَلَ مُعْتَبَرٌ لِاِثْبَاتِ الْاَھْلِیَّۃِوَھُوَ نُوْرٌ فِی بَدَنِ الْاٰدَمِیْ یُضِیَْٔ بِہٖ طَرِیْقٌ یَبْتَدِیُٔ بِہٖ مِنْ حَیْثُ یَنْتَھِیَ اِلَیْہِ دَرْکُ الْحَوَاسِ فَیَبْدَءُ الْمَطْلُوْبُ لِلْقَلْبِ فَیُدَْرُکُہٗ الْقَلْبُ بِتَأَمُّلِہٖ بِتَوْفِیْقِ اللّٰہِ تَعَالٰی لَابِاِیْجَابِہٖ وَھُوَ کَالشَّمْسِ فِی الْمَلَکُوْتِ الظَّاھِرَۃِ اِذَا بَزَغَتْ وَبَدَا شُعَاعُھَاوَوَضَحَ الطَّرِیْقُ کَانَتِ الْعَیْنُ مُدْرِکَۃً بِشِھَابِھَاوَمَا بِالْعَقْلِ کِفَایَۃً۔
ترجمہ:-یہ فصل ہے،(عقل کے بیان میں)عقل کے بارے میں لوگوں نے اختلاف کیاہے کہ وہ عللِ موجبہ میں سے ہے یانہیں؟ تو معتزلہ نے کہا کہ عقل اس چیز کے لئے جس کو وہ اچھا سمجھے علتِ موجبہ ہے،اور اس چیز کے لئے جس کو وہ قبیح سمجھے علتِ مُحَرِّمَہ ہے قطعیت کے ساتھ علل شرعیہ سے بڑھ کر،پس معتزلہ نے یہ جائز قرار نہیں دیا کہ دلیل شرع سے وہ حکم ثابت ہوجس کا عقل ادراک نہ کرسکے ،یا اس کو قبیح سمجھے،اور انہوں نے خطاب ِشرع کو نفس عقل کے