کی وجہ سے جو ہم نے بیان کی ،اور اس شرط پر فاعل مختارکا فعل طاری ہوا ہے ،پس اول سبب محض باقی رہا ،لہٰذا تلف فتح کی طرف منسوب نہ ہوگا ،برخلاف کنویں میں گرنے کے کیونکہ گرنے والے کا گرنے میں کوئی اختیار نہیں ہے یہاں تک کہ اگر اس نے اپنے کو خود گرایا ہے تو اس کا خون رائیگاں ہوگا۔
------------------------------
تشریح :-اسی اصول پر__ کہ علت اگر حکم کو قبول کرنے کی صلاحیت رکھتی ہوتو حکم شرط اور سبب کی طرف منسوب نہ ہوگا __ ہم کہتے ہیں کہ کسی شخص نے زیدکے غلام کی بیڑی کھول دی اور غلام بھاگ گیا ،توبیڑی کھولنے والے پر غلام کی قیمت کا ضمان نہ آئے گا ، اس لئے کہ بیڑی کھولناتو شرط ہے ،یہ بیڑی بھاگنے سے مانع تھی ،تو اس نے کھولکر مانع زائل کردیا ، اور مانع کو زائل کرنے کا نا م شرط ہے،لیکن بھاگنے کی اصل علت تو فاعلِ مختار یعنی غلام کا فعل ہے ،اور یہ علت ایسی ہے جس کی طرف ہلاک ہونے کا حکم منسوب ہوسکتا ہے ،لہٰذا غلام کے ضائع ہونے کا حکم شرط یعنی بیڑی کھولنے والے کی طرف منسوب نہ ہوگا ۔
لیکن بیڑی کھولنا اگر چہ شرط ہے لیکن اس میں سببیت کے معنی ہے کیونکہ سبب حقیقی علت سے پہلے ہوتا ہے جیسے شرط علت سے مؤخر ہوتی ہے ،اور یہاں بیڑی کھولنے میں یہ بات ہے کیونکہ بیڑی کھولنا غلام کے بھاگنے پر مقدم ہے جو بھاگنا تلف کی علت ہے ، لیکن یہ شرط سبب ِمحض ہے ،علت کے معنی اس میں نہیں ہے ،کیونکہ جس شرط میں علت کے معنی ہوتے ہیں وہ علت اسی شرط سے پیدا ہوتی ہے، حالانکہ یہاں بھاگنا جو علت ہے،اور بیڑی کھولنے پر پیش آیا وہ بذات ِخود قائم ہے،وہ شرط سے یعنی بیڑی کھولنے سے پیدا نہیں ہوا ۔
غرض جب بیڑی کھولنا شرط ہے جو سبب کے معنی میں ہے ،نہ کہ علت کے معنی میں، تو حکم کو اس شرط کی طرف منسوب نہیں کیا جائے گاجیسے جب شرط میں علت کے معنی ہوتو حکم اس شرط کی طرف منسوب ہوتا ہے ،جیسے کنواں کھودنا جو پہلے گذرا ،اس کی مثال بعینہ ایسی ہے جیسے کسی نے راستہ میں چوپا یہ چھوڑدیا، پھر وہ چوپا یہ دائیں بائیں گھوم کر کسی چیز کو تلف کرے ،تو چھوڑنے والے پر تلف کا ضمان نہ آئے گا، کیونکہ یہاں جانور کو چھوڑنے اور سامان ہلاک کرنے کے درمیان فاعل ِمختار یعنی چوپا یہ کا فعل ہے،اسی طرح یہاں بھی ہے،لیکن یہ بات یادرکھیں کہ اگر جانور کو جس راستہ پر چھوڑا ہے، اگر اس کے علاوہ کوئی راستہ نہ ہوتو مرسل پر تلف کا ضمان آئے گا ،اسی طرح اگر جانور دائیں بائیں نہیں گھوما،جس طرف چھوڑا ہے اسی طرف چل کر کوئی چیز تلف کی تو بھی مرسل پر ضمان آئے گا ،ان دونوں صورتوں میں مرسل بمنزلہ سائق کے ہوگا اور پہلے پڑھ چکے ہیں کہ سائق پر ضمان آتا ہے ۔
پھر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ بیڑی کھولنا اور جانور کو چھوڑنا دونوں کو آپ نے ایک درجہ میں رکھ دیاحالانکہ بیڑی کھولنا یہ شرط ہے ،کیونکہ بیڑی بھاگنے سے مانع تھی تو اس کو کھول کر مانع زائل کردیا اور ازالۂ مانع کانام شرط ہے،اور