دوسری مثال جیسے طلاق دینا حرام ہے ،مگر شدید حاجت کے وقت مباح ہے،اب حاجت ایک امرِ باطن ہے، تو اس کی جگہ دلیلِ حاجت کو قائم مقام کردیا، تفصیل اس کی یہ ہے کہ ہر جدید طہر میں انسان کی طبیعت جماع پر آمادہ ہوتی ہے ،یہ انسانی فطرت ہے ،لیکن جدید طہر میں وہ بجائے جماع کے طلاق کا ارادہ کررہا ہے یہ دلیل ہے کہ اس کو طلاق کی سخت حاجت ہے،ورنہ وہ طلاق پر آمادہ نہ ہوتا، لہٰذا طہر جدید میں طلاق کو حاجت کے قائم مقام کردیا ،اور کہا کہ طہر ِجدید میں طلاق مباح ہے،تو طہر جدید میں طلاق دینا یہ دلیل ہے اس کو مدلول یعنی حاجت کے قائم مقام کردیا۔
وَاَمَّا الشَّرْطُ فَھُوَفِی الشَّرِیْعَۃِ عِبَارَۃٌ عَمَّا یُضَافُ اِلَیْہِ الْحُکْمُ وُجُوْدًا عِنْدَہٗ لَا وُجُوْبًا بِہٖ فَالطَّلَاقُ الْمُعَلَّقُ بِدُخُوْلِ الدَّارِ یُوْجَدُ بِقَوْلِہٖ اَنْتِ طَالِقٌ عِنْدَ دُخُوْلِ الدَّارِ لَابِہٖ وَقَدْ یُقَامُ الشَّرْطُ مَقَامَ الْعِلَّۃِ کَحَفْرِ الْبِیْرِ فِیْ الطَّرِیْقِ ھُوَ شَرْطٌ فِی الْحَقِیْقَۃِ لِاَنَّ الثِّقْلَ عِلَّۃُ السُّقُوْطِ وَالْمَشْیُ سَبَبٌ مَحْضٌ لٰکِنَّ الْاَرْضَ کَانَتْ مُمْسِکَۃٔ مَانِعَۃً عَمَلَ الثِّقْلِ فَصَارَ الْحَفْرُ اِزَالَۃً لِلْمَانِعِ فَثَبَتَ اَنَّہٗ شَرْطٌ وَلٰکِنَّ الْعِلَّۃَ لَیْسَتْ بِصَالِحَۃٍ لِلْحُکْمِ لِاَنَّ الثِّقْلَ اَمْرٌ طَبْعِیٌ لَاتَعَدِّیَ فِیْہِ وَالْمَشْیُ مُبَاحٌ بِلَاشُبْہَۃٍ فَلَمْ یَصْلَحْ اَنْ یُّجْعَلَ عِلَّۃً بِوَاسِطَۃِ الثِّقْلِ وَاِذَالَمْ یُعَارِضْ الشَّرْطَ مَاھُوَ عِلَّۃٌ وَِلِلشَّرْطِ شُبْہَۃٌ بِالْعِلَلِ لِمَا یَتَعَلَّقُ بِہٖ مِنَ الْوُجُوْدِ اُقِیْمَ مَقَامَ الْعَلَّۃِ فِیْ ضَمَانِ النَّفْسِ وَالْاَمْوَالِ جَمِیْعًا۔
ترجمہ:-اوربہرحال شرط پس وہ شریعت میں نام ہے اس چیز کا جس کی طرف حکم منسوب کیا جاتا ہے وجود کے اعتبار سے اس چیز کے پائے جانے کے وقت نہ کہ اس کی وجہ سے وجوب کے اعتبار سے،پس وہ طلاق جو دخولِ دار پر معلق ہے وہ پائی جائے گی ، شوہر کے قو ل انت طالق سے، دخولِ دار کے وقت نہ کہ دخولِ دار کی وجہ سے ۔
اورکبھی شرط کو علت کے قائم مقام کیاجاتاہے جیسے راستہ میں کنواں کھودنا ،اور یہ حقیقت میںشرط ہے ،اس لئے کہ ثقل سقوط کی علت ہے ،اور چلنا سببِ محض ہے،لیکن زمین رکاوٹ ہے جوثقل کے عمل کو روکتی ہے،پس کھودنا مانع کو زائل کرنا ہوا،تو ثابت ہوگیا کہ کھودنا شرط ہے ،لیکن علت حکم کی صلاحیت نہیں رکھتی ہے،اس لئے کہ ثقل امرِطبعی ہے جس میں کوئی تعدی نہیں ہے،اور چلنا بلاشبہ مباح ہے،پس چلنا ثقل کے واسطے سے علت بننے کی صلاحیت نہیں رکھے گا،پس جب شرط کے معارض نہیں ہوئی وہ چیز جو علت ہے،اور شرط کو علل کے ساتھ مشابہت ہے اس وجود کی وجہ سے جو شرط کے ساتھ متعلق ہے،تو شرط کو علت کے قائم مقام کردیا گیا جان اور مال دونوں کے ضمان میں۔