دینے میں کہ محبت کی خبر کو محبت کے قائم مقام کردیا گیا ہے شوہر کے قولً ’’ان احببتنی فانتِ طالق‘‘ میں،اور جیسے طہر میں کہ اس کو اباحتِ طلاق میں حاجت کے قائم مقام کردیا گیا ہے ۔
------------------------------
تشریح :-مصنفؒ ایک ا صول کلی بتلارہے ہیں کہ جب حکم دومؤثر وصفوں کے ساتھ متعلق ہوتو ان دووصفوں میں سے جووجود میں مؤخر ہوگا تو وہ معنی ًاور حکما علت ہوگااسماً علت نہ ہوگا ،اور وصفِ اول صرف معنیً علت ہوگا،یعنی وہ بھی ایک گونہ علت کے مشابہ ہوگا،وصفِ مؤخر حکماً اس لئے علت ہوگا کہ حکم وصف ِثانی کی طرف ہی منسوب ہوگا اور اس وصفِ ثانی کے موجود ہونے پر ہی حکم موجود ہوگا،اور معنیً اس لئے علت ہوگا کہ وصفِ مؤخر حکم میں مؤثر ہے،اور وصفِ اول بھی حکم میں مؤثر ہے کیونکہ وہ بھی معنیً علت ہے،نیز علت کے دور کنوں میں سے ایک رکن ہے، لہٰذا وصفِ اول مشابہ بالعلۃ ہوگا ،سبب ِمحض نہ ہوگا ،کیونکہ اگر وصف ِ اول کو حکم میں غیر مؤثر قرار دینگے تو صرف وصف ِمؤخرکا علت ہونا لازم آئے گا حالانکہ دونوں وصفوں کا مجموعہ علت ہے ۔
جیسے قرابت اور ملک دونوں کا مجموعہ عتق کی علت ہے، تو ان دونوں میں سے جو آخر میں ہوگا وہ حکم میں مؤثر ہوگا،اگر ملک بعد میں پائی گئی جیسے ایک شخص نے اپنے قریبی محرم غلام کو خریدا تو ملک وجودًا مؤخر ہے ،لہٰذا یہ معنی اور حکماًعلت بنے گی، حکماً تو اس لئے کہ ملک کے بعد فوراً عتق ثابت ہوجائے گا ،اور معنیً اس لئے علت ہے کہ ملک عتق میں مؤثر ہے،اور اسماً اس لئے علت نہ بنے گی کہ ملک کو عتق کے لئے وضع نہیں کیاگیا ہے ،بلکہ قرابت اورملک دونوں کا مجموعہ عتق کے لیے موضوع ہے ، اور وصفِ اول قرابت صرف معنیً علت ہوگی ،کیوںکہ قرابت بھی عتق میں مؤثرہے،البتہ یہ حکماً اور اسماً علت نہ ہوگی کیونکہ قرابت کے بعد بدون ملک کے عتق کا ثبوت نہیں ہوتا ،اور نہ قرابت عتق کے لئے موضوع ہے،بلکہ قرابت اور ملک دونوں کا مجموعہ عتق کے لئے موضوع ہے،__ اور اگر اس کے برعکس یعنی قرابت مؤخر ہے جیسے کسی نے مجہول النسب غلام کو خریدا پھر ایک ماہ بعد غلام نے دعوی کیا کہ مشتری میرا حقیقی بھائی ہے ،اور ثبوت بھی ہوگیا ،تو یہاں قرابت وصف ِ مؤخر ہے،لہٰذا یہ معنیً اور حکماًعلت ہوگی ،اسماً نہ ہوگی اوروصفِ اول ملک صرف معنیً علت ہوگی ، __ بہرحال جب دووصفوں کا مجموعہ کسی حکم کی علت ہو،اور ان میں سے ایک پہلے پایا جائے،دوسرا بعدمیں تو وصفِ مؤخر معنیً اور حکماً علت ہوگا اور وصف ِ اول معنیً علت ہوگا، اور اگر دونوں ایک ساتھ ہوں تو دونوں معنیً،حکماً اور اسماً علت ہوں گے، یعنی علتِ کاملہ ہوں گے ،اور جب اجتماعی طریقہ پر یہ دونوں مؤثر ہیںتو انفرادی طریقہ پر بھی ان کو مؤثر مانا جائے گا، اگر چہ تاثیرکی نوعیت الگ ہوگی ،یعنی دونوں وصفوں کے الگ الگ ہونے کی صورت میں اگرچہ ان میں کوئی وصف علت ِحقیقیہ نہ ہوگامگر پھر بھی مشابہ بالعلۃ تو ہر وصف رہے گا ،ان کو سبب نہیں کہیں گے،علت ہی کہیں گے__ جیسے ربو کی علت ہمارے نزدیک قدر اور جنس کامجموعہ ہے،اگریہ دونوں وصف ہوں