وغباوت ہے، اور یہ معنی مشبہ بہ یعنی گدھے کے ساتھ خاص بھی ہے ،اور اس میں یہ معنی عوام میں مشہور بھی ہیں۔
اتصال صوری سے مراد یہ ہے کہ معنی حقیقی اور معنی مجازی کے درمیان مجاورت اور پڑوس کا تعلق ہوجیسے سماء بولکر مطر بارش مراد لینا یہاں سماء(بادل )کی صورت مطر کی صورت سے ملی ہوئی ہے کیوںکہ بارش بادل سے ہی ہوتی ہے، یہاں مثال میں سماء سے مراد بادل ہے ،کیونکہ عرف میں ہر اوپر والی چیز کو سماء کہتے ہیں،اور بادل بھی اوپر ہوتا ہے ،جیسے اوکصیب من السماء یہاں سماء سے مراد بادل ہے
بہر حال اتصال صوری میں دونوں کے درمیان مجاورت وپڑوس کا تعلق ہوتا ہے،یعنی دونوں معنی میں سے ایک علت ، سبب ،شرط ،یاحال ہو یا مجاز مرسل کے چوبیس علاقوں میں سے کوئی بھی علاقہ ہوتو یہ سب اتصال صوری میں داخل ہیں،اسی لئے مصنفؒ کہتے ہیںکہ اتصال سببی بھی اسی قبیل سے ہے یعنی سبب کا علاقہ ہے تو وہ اتصال صوری ہے، اور اس کی دو قسمیں ہیں، (۱)سبب اور مسبب کا اتصال ۔(۲)علت اور معلول کا اتصال ۔مصنفؒ مجاز کے تمام علاقوں کو چھوڑ کر صرف ان دو علاقوں سے بحث کریں گے۔
چنانچہ آگے تفصیل سے انہیں دو کابیان شروع کررہے ہیں۔
اَحَدُھَمَا اِتِّصَالُ الْحُکْمِ بِالْعِلَّۃِ کَاِتِّصَالِ الْمِلْکِ بِالشِّرَاءِ وَاِنَّہٗ یُوْجِبُ الْاِسْتَعَارَۃَ مِنَ الطَّرْفَیْنِ لِاَنَّ الْعِلَّۃَ لَمْ تُشْرَعْ اِلَّالِحُکْمِھَا وَالْحُکْمُ لَایَثْبُتُ اِلَّابِعِلَّۃٍ فَاسْتَوَی الْاِتِّصَالُ فَعَمَّتِ الْاِسْتِعَارَۃُ وَلِھٰذَاقُلْنَا فِیْمَنْ قَالَ اِنِ اشْتَرَیْتُ عَبْدًا فَھُوَ حُرٌُ فَاشْتَریٰ نِصْفَ عَبْدٍ وَبَاعَہٗ ثُمَّ اشْتَریٰ النِّصْفَ الْاٰخَرَ یَعْتِقُ ھٰذَا النِّصْفُ الْاٰخَرُ وَلَوْ قَالَ اِنْ مَلَکْتُ لَایَعْتِقُ مَالَمْ یَجْتَمِعِ الْکُلُّ فِیْ مِلکِہٖ فَاِنْ عَنٰی بِاَحَدِھِمَا الْاٰخَرَ تُعْمَلُ بِنِیَّتِہِ فِیْ مَوْضَعَیْنِ لٰکِنْ فِیْمَا فِیْہِ تَخْفِیْفٌ عَلَیْہِ لَایُصَدَّقُ فِی الْقَضَاءِ وَیُصَدَّقُ دَیَانَہً
ترجمہ:-ان دونوں میں سے ایک حکم کا اتصال ہے علت کے ساتھ جیسے ملک کا اتصال شراء کے ساتھ اور یہ (پہلی قسم) واجب کرتی ہے استعارہ کو دونوں طرف سے، اس لئے کہ علت نہیں مشروع ہوئی مگر اپنے حکم کے لئے اور حکم نہیں ثابت ہوتا ہے مگر علت سے ،پس اتصال برابر ہوگیا تو عام ہوگا استعارہ ،اور اسی وجہ سے ہم نے کہا اس شخص کے بارے میں جس نے کہا ’’اگر میں نے غلام خریدا تو وہ آزاد ہے‘‘پھر اس نے آدھا غلام خریدا اور اس کو بیچ دیا پھر دوسرا آدھا خریدا ،تو یہ دوسرا آدھاآزاد ہوجائے گا،اور اگر اس نے کہا ’’اگر میں غلام کا مالک ہوگیا ‘‘تو وہ آزاد نہ ہوگا جب