مصنفؒ فرماتے ہیں تعارض کی صورت میں وصفِ ذاتی کی وجہ سے ترجیح دینا وصف ِعارضی کے مقابلہ میں افضل وارحج ہے،کیونکہ حال یعنی وصف ِعارضی ذات کے ساتھ قائم ہوتا ہے ،ذات کے تابع ہوتا ہے، اورتابع اصل کو باطل نہیں کرسکتا ہے __بقول صاحب نامی مصنفؒ کی عبارت میں نظر ہے،کیونکہ عبارت سے ذات کی وصف پر ترجیح مفہوم ہورہی ہے ،اور اس میں کوئی کلام نہیں ہے، کلام تو ایسے دودصفوں میں ہے کہ ایک وصفِ ذاتی ہو،اور دوسراوصفِ عارضی ہو__ لہٰذا یہ کہنا انسب ہے کہ وصف عارض کبھی ذات سے جدا ہوجاتا ہے ،ذات اس کے بغیر بھی پائی جاتی ہے ، اور وصف ذاتی ذات سے کبھی جدا نہیں ہوتا اور ذات اس کے بغیر نہیں پائی جاتی __لہٰذا وصفِ ذاتی کی وجہ سے ترجیح اولی ہے وصفِ عارض سے۔
اسی اصل پر ہمارے اور امام شافعیؒ کے درمیان ایک مسئلہ میں اختلاف ہوگیا،مسئلہ یہ ہے کہ اگر رمضان کے روزہ میں کسی نے شروع سے نیت نہ کی،نصف النہار سے پہلے پہلے نیت کی تو شوافع کے نزدیک روزہ نہ ہوگا اور ہمارے نزدیک روزہ ہوجائے گا کیوں کہ یہاں دن کا بعض حصہ بغیر نیت کے ہوا اور بعض حصہ نیت کے ساتھ گویا آدھا صحیح اورآدھا فاسد ہوا اور روزہ میں تجزی نہیں ہے ، لہٰذا یا تو پورا صحیح ہوگا یا پورا فاسد ہوگا ، فاسد حصہ کو ترجیح دیں گے تو پورا روزہ فاسد ہوگا اور صحیح حصہ کو ترجیح دیں گے تو پورا روزہ صحیح ہوگا، دونوں طرح وجہِ ترجیح ہے ، امام شافعی نے فاسد حصہ کو ترجیح دی ، وہ اس طرح __کہ روزہ عبادت ہے جس کی حقیقت مفطراتِ ثلثہ سے امساک ہے لیکن محض امساک عبادت نہیں ،جب تک اس کے ساتھ نیت نہ ہو ،تو جب دن کے ایک حصہ میں نیت نہیں پائی گئی تو عبادات کے باب میں احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ روزہ معتبر نہ ہو، کیوں کہ آدھا فاسد ہوا اور آدھا صحیح ،تو عبادت کے باب میں پورے کو فاسد کہنا احوط ہے ، __لیکن ہم کہتے ہیں کہ جب دن کے اکثر حصہ میں نیت پائی گئی اور بعض حصہ میں نیت نہیں پائی گئی ، تو دن کے اکثر اجزا جو نیت کے ساتھ ہیں اس کو بعض اجزا پر جو بغیر نیت کے ہیں ترجیح دیں گے، للاکثر حکم الکل کے قاعدے سے ،کیونکہ روزہ ایک عبادت ہے جس میں تجزی نہیںہے،یاتو پورا صحیح ہوگا یا پورا فاسد،__الغرض امام شافعیؒ نے عبادت ہونے کے پہلوکو اختیار کرتے ہوئے فاسد کو صحیح پر ترجیح دی،(یعنی دن کے جس حصہ میں نیت نہیں تھی اس میں روزہ فاسد ہے اور جس حصہ میں نیت پائی گئی اس میں روزہ صحیح ہوا)اور روزہ کا عبادت ہونا وصفِ عارضی ہے ،کیوں کہ یہ عبادت بنتا ہے نیت سے،نفس امساک عبادت نہیں ہے، توعبادت ہونا امساک کے لئے وصف ِعارض ہے جو کبھی امساک سے جدا بھی ہوتاہے،جیسے کوئی صرف بھوکا رہا تو امساک ہے عبادت نہیں،غرض عبادت ہونا روزہ کا وصف ِعارضی ہے __اورہم نے دن کے اجزاء کے اعتبار سے ترجیح دی ، کیوں کہ اکثر اجزاء میں نیت تھی ،بعض میں نہ تھی تو اکثر کو ترجیح دیتے ہوئے روزہ کو صحیح قرار دیا ، اور وقت کے اجزاء کل وقت کا وصفِ ذاتی ہے، بلکہ مُقَوَّمْ ہے،