دعوی پر دلیل بنارہا ہے ،تو ایک وصف کا دومتنافی حکموں لئے دلیل بننا لازم آئے گا جو عقلانا ممکن ہے __اس لئے مصنفؒ فرماتے ہیں کہ مُسْتَدِلَّ کے وصف میں کچھ زیادتی کردی جائے مگر وصف پر جو زیادتی ہے وہ اسی وصف کی تفسیر ہو،اس وصف کو متغیر نہ کردے کہ اس کا وصف ِآخر ہونا لازم آئے ۔
جیسے شوافع کہتے ہیں کہ رمضان کا روزہ فرض ہے تو بغیر تعیینِ نیت کے ادانہ ہوگا، جیسے قضاء کا روزہ فرض ہے تو بغیر تعیین نیت کے ادا نہیں ہوتا__ تو شوافع نے فرضیت کو تعیینِ نیت کی علت بنایا ،اور رمضان کے روزہ کو قضا روزہ پر قیاس کیا، __ ہم نے معارضہ بالقلب کے ذریعہ جواب دیا اور کہا کہ فرضیت تعیین ِنیت کی علت نہیں بلکہ عدم ِتعیین کی علت ہے ،وہ اس طرح کہ رمضان کا روزہ فرض ہے ،لہٰذا خود سے تعیین کی ضرورت نہیں ہے ،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو متعین کردیا ہے،جیسے قضاء کا روزہ ایک مرتبہ متعین کرنے کے بعد دوبار ہ اس میں تعیین کی ضرورت نہیں، غرض رمضان کا روزہ اور قضاء روزہ دونوں میں علت فرضیت ہے، اور دونوں اس بات میں برابر ہیں کہ ایک بار تعیین کے بعد دوبارہ اس میں تعیین کی ضرورت نہیں __ لیکن چونکہ رمضان کے روزہ میں ایک مرتبہ تعیین منجانب اللہ ہوچکی ہے، لہٰذا دوبارہ تعیین کی ضرورت نہیں ، اور قضاء روزہ نیت سے شروع کرنے سے متعین ہوتا ہے، لہٰذا ایک مرتبہ شروع کرکے جب متعین کردیا تو دوبا رہ اس میں بھی نیت کی ضرورت نہیں ہے__ کیوں کہ فرضیت جو مُسْتَدَل کی دلیل تھی ، اس میں تھوڑی زیادتی کردی جو زیادتی اسی وصف فرضیت کی تفسیر ہے وہ یہ کہ فرضیت رمضان میں تعیین اللہ کی طرف سے ہوچکی ہے ، تو اب یہ دلیل مستدل کے دعوی کے خلاف یعنی عدم تعیین کی دلیل بن گئی ۔ غرض ہم نے فرضیت کو عدم تعیین کی علت قراردیا، یہ معارضہ بالقلب ہے۔
وَقَدْ تَقْلُبُ الْعِلَّۃُ مِنْ وَجْہٍ اٰخَرَ وَھُوَ ضَعِیْفٌ مِثَالُہٗ قَوْلُهُمْ ھٰذِہٖ عِبَادَۃٌ لَاتُمْضٰی فِیْ فَاسِدِھَافَوَجَبَ اَنْ لَا یَلْزَمَ بِالشُّرُوْعِ کَالْوُضُوْءِ فَیُقَالُ لَھُمْ لَمَّاکَانَ کَذٰلِکَ وَجَبَ اَنْ یَّسْتَوِیَ فِیْہٖ عَمَلُ النَّذْرِ وَالشُّرُوْعِ کَالْوُضُوْءِ وَھُوَضَعِیْفٌ مِنْ وُجُوْہِ الْقَلْبِ لِاَنَّہٗ لَمَّاجَاءَ بِحُکُمٍ اٰخَرَ ذَھَبَتِ الْمُنَاقَضَۃٌ وَلِاَنَّ الْمَقْصُوْدُمِنَ الْکَلَامِ مَعْنَاہٗ وَالْاِسْتِوَاءُ مُخْتَلِفٌ فِی الْمُعْنٰی ثُبُوْتٌ مِنْ وَجْہٍ وَسُقُوْطٌ مِنَ وَجْہِ عَلٰی وَجْہِ التَّضَادِوَذٰلِکَ مُبْطِلٌ لِلْقِیَاسِ۔
ترجمہ :- اور کبھی قلبِ علت ہوتا ہے دوسرے طریقہ پر ،اور وہ ضعیف ہے، اس کی مثال شوافع کا قول ہے کہ یہ نوافل ایسی عبادت ہے جس کے فاسد کو پورا نہیں کیا جاتا تو ضروری ہے کہ شروع کرنے سے بھی لازم نہ ہو، جیسے وضو،