قُوْلِنَا اَنَّ دَلِیْلَ الشَّرْعِ لَابُدَّاَنْ یُوْجِبَ عِلْماً اَوْعَمَلًا وَھٰذَا لَایُوْجِبُ عِلْمًا بِلَاخِلَافٍ وَلَایُوْجِبُ عَمَلًا فِی الْمَنْصُوْصِ عَلَیْہِ لِاَنَّہٗ ثَابِتٌ بِالنَّصِّ وَالنَّصُّ فَوْقَ التَّعْلِیْلِ فَلَا یَصِحُّ قَطْعُہٗ عَنْہٗ فَلَمْ یَبْقَ لِلتَّعْلِیْلِ حُکْمُ سِوَی التَّعْدِیَۃِ فَاِنْ قِیْلَ التَّعْلِیْلُ بِمَالَایَتَعَدّٰی یُفِیْدُ اِخْتَصَاصَ حُکْمِ النَّصِّ بِہٖ قُلْنَا ھٰذَا یَحْصُلُ بِتَرْکِ التَّعْلِیْلِ عَلٰی اَنَّ التَّعْلِیْلَ بِمَالَا یَتَعَدّٰی لَا یَمْنَعُ التَّعْلِیْلَ بِمَایَتَعَدّٰی فَتَبْطُلُ ھٰذِہٖ الْفَائِدَۃُ
ترجمہ:-اوربہر حال قیاس کا حکم پس نص کے حکم کو متعدی کرنا ہے اس فرع کی طرف جس میں نص نہ ہو ،تا کہ اس میں احتمالِ خطا کے ساتھ غالب رائے سے حکم ثابت ہوجائے،پس ہمارے نزدیک تعدیہ تعلیل کے لئے ایک لازمی حکم ہے، امام شافعیؒ کے نزدیک تعلیل صحیح ہے بغیر تعدیہ کے ،یہاں تک کہ انہوں نے ثمنیت کے ساتھ تعلیل کو جائز قرار دیا ہے ، اور اس بات سے استدلال کیا ہے کہ یہ تعلیل جب دلائلِ شرعیہ کی جنس سے ہے تو واجب ہے کہ اس تعلیل کے ساتھ حکم کا اثبات متعلق ہو،جیسا کہ تمام دلائلِ شرعیہ، کیا تو نہیں دیکھتا ہے کہ وصف کے علت ہونے کی دلیل اس کے متعدی ہونے کا تقاضا نہیں کرتی ہے ،بلکہ تعدیہ وصف میں ایک معنی کی وجہ سے پہچانا جائے گا ،اور ہمارے قول کی دلیل یہ ہے کہ دلیلِ شرعی کے لئے ضروری ہے کہ وہ علم یا عمل کو واجب کرے ،اور یہ تعلیل علمِ یقینی کو واجب نہیں کرتی بغیر اختلاف کے، اور نہ یہ منصوص علیہ میں عمل کو واجب کرتی ہے،اس لئے کہ وہ (وجوب ِعمل ) نص سے ثابت ہے،اور نص تعلیل سے بڑھ کر ہے تو وجوبِ حکم کو نص سے منقطع کرنا صحیح نہ ہوگا، پس تعلیل کے لئے تعدیہ کے علاوہ کوئی حکم باقی نہیں رہا،پس اگر اعتراض کیا جائے کہ تعلیل ایسی علت کے ساتھ جو متعدی نہیں ہے نص کے ساتھ حکم ِنص کو خاص کرنے کا فائدہ دیتی ہے،تو ہم جواب دیں گے کہ یہ اختصاص ترکِ تعلیل سے حاصل ہوجاتا ہے، علاوہ اس بات کے تعلیل ایسی علت کے ساتھ جو متعدی نہیں ہے ، نہیں روکتی ہے تعلیل کو ایسی علت کے ساتھ جو متعدی ہے، پس یہ فائدہ باطل ہوجائے گا۔
------------------------------
تشریح:-مصنفؒ قیاس کا حکم بیان فرمارہے ہیں کہ قیاس کا حکم تعدیہ ہے یعنی اس کا حکم ایسی فرع کی طرف متعدی کرنا جس میں نص یا اجماع وغیرہ ایسی کوئی دلیل نہ ہوجو قیاس سے بڑھ کر ہو،کیونکہ قیاس کی شرطوں میں ہے کہ اس کے مقابل میں کوئی قوی دلیل نہ ہو ،پھر اصل سے فرع کی طرف جو حکم متعدی ہوگا وہ غالب رائے سے ہوگا ،غالب رائے اس لئے کہا کہ قیاس ادلۂ ظنّیہ میںسے ہے قطعیہ میں سے نہیں ہے ،اگر چہ قیاس پر عمل قطعی ویقینی طور پر واجب