کسی نے کھاپی لیا تو اس کا روزہ نہیں ٹوٹتا ہے ،حالا نکہ علت پائی گئی ِروزہ کا رکن یعنی امساک فوت ہوگیا تو روزہ ٹوٹنا چاہیے __تو فریقِ اول جو تخصیصِ علت کا قائل ہے و ہ تو کہتاہے کہ یہاں علت تو پائی گئی (یعنی فوات ِامساک )مگر حکم (فسادِ صوم)ایک مانع کی وجہ سے نہیںپایا گیا،مانع وہ حدیث ہے جس میں فرمایا انما اطعمہ اللہ وسقاہ ، اس کو اللہ نے کھلایا پلایا ہے،__ہماری طرف سے جواب یہ ہے کہ ناسی کے روزہ کا عدم ِ فساد عدم ِعلت کی وجہ سے ہے ، ہمارے نزدیک علت یعنی فوات امساک ہواہی نہیں، کیونکہ ناسی کا فعل اللہ کی طرف منسوب ہے یعنی اللہ نے اس کو کھلایا پلایا ،تو گویا اس نے کھایا پیاہی نہیں، لہٰذا اس سے جنایت کے معنی ساقط ہوجائیں گے اور اس سے جو کھانے پینے کا فعل ہواہے وہ معاف ہوجائے گا، تو روزہ کا رکن باقی ہے، اس لئے روزہ باقی ہے ،ایسا نہیں ہے کہ روزہ کا رکن تو فوت ہوگیا مگر مانع کی وجہ سے روزہ نہیں ٹوٹا__ الغرض فریقِ اول نے جس چیز کو (حدیث رسول انما اطعمہ اللہ وسقاہ) تخصیصِ علت کی دلیل قرار دیا، اسی چیز کو ہم نے عدم ِ علت کی دلیل قرار دیا جس کی وضاحت تشریح میں ہوگئی۔
مصنفؒ کہتے ہیں کہ یہ یعنی تخصیص علت کی دلیل کو عدمِ علت کی دلیل قرار دینا، اس فصل کی بنیاد ہے، اس کو یاد کرلو، مضبوط کرلو، اس میں بہت سافقہ ہے اس باب کے بہت سارے مسائل اس اصل پر متفرع ہیں اور اس میں بہت سارے اعتراضات سے چھٹکارا ہے۔
تنبیہ:- مصنفؒ نے کتاب میں عِلَلَ کا بیان کیا ہے اس سے مراد عِلَلَ مستنبطہ ہیں، عللِ منصوصہ مراد نہیں ہیں، یعنی وہ علتیں مراد ہیں جو ادلۂ اربعہ سے مستنبط ہیں، وہ نہیں جن پر نص وارد ہوتی ہیں، کیونکہ اکثر فقہاء عِلَلَ منصوصہ میں تخصیص کے قائل ہیں، جیسے زنا حد کی علت ِمنصوصہ ہے، سرقہ قطعِ ید کی علتِ منصوصہ ہے، علل منصوصہ میں بعض صورتوں میں علت کے باوجود کسی مانع کی وجہ سے حکم نہیں پایا جاتا جیسے زنا یا سرقہ پایا گیا کسی شبہ کی وجہ سے ثبوت نہ ہوسکا تو باوجود علت کے حکم متحقق نہ ہوگا، غرض عِلَلِ منصوصہ میں کسی مانع کے سبب حکم کاعلت سے تخلف جائز ہے ۔ (فیض سبحانی)
وَاَمَّاحُکْمُہٗ فَتَعْدِیَۃُ حُکْمِ النَّصِّ اِلٰی مَالَانَصَّ فِیْہِ لِیَثْبُتَ فِیْہِ بِغَالِبِ الرَّأْیِ عَلٰی اِحْتِمَالِ الْخَطَأِ فَالتَّعْدیِۃُحُکْمٌ لاَزِمٌ لِلتَّعْلِیْلِ عِنْدَنَا وَعِنْدَ الشَّافِعِیِّ ھُوَصَحِیْحٌ بِدُوْنِ التَّعْدِیَۃِ حَتّٰی جَوَّزَ التَّعْلِیْلَ بِالثَّمَنِیَّۃِ وَاِحْتَجَّ بِاَنَّ ھٰذَا لَمَّاکَانَ مِنْ جِنْسِ الْحُجَج وَجَبََ اَنْ یَّتَعَلَّقَ بِہٖ الْاِیْجَابُ کَسَائِرِ الْحُجَجِ اَلَاتَریٰ اَنَّ دَلَالَۃَ کَوْنِ الْوَصْفِ عِلَّۃً لاَیَقْتَضِیْ تَعْدِیَتَہٗ بَلْ یُعْرَفُ ذٰلِکَ بِمَعْنًی فِی الْوَصْفِ وَوَجْہُ