نہیں کرسکتے ۔
مصنفؒ اس کا جواب دے رہے ہیں کہ حدیث میں تساوی کی حالت کا استثناء دلالت کرتا ہے کہ صدر کلام یعنی مستثنی منہ میں عموم ِاحوال مراد ہے ،اور عمومِ احوال مقدار کثیر میں ہی ہوسکتا ہے ،مقدارقلیل میںنہیں ہوسکتا،لہٰذا یہ تغییر نص کے موافق ہے ،اس کی تفصیل یہ ہے کہ حدیث لاتبعیواالطعام بالطعام الاسواء بسواء میں مساوات کا استثناء ہے ، اور مستثنی میں اصل یہ ہے کہ مستثنی منہ کی جنس سے ہو ،حالانکہ یہاں ایسا نہیں ہے کیونکہ طعام عین ہے اور مساوات حالت ہے،ایک عین ہے اور ایک حالت ہے،حالانکہ مستثنی اور مستثنی منہ دونوں یا تواعیان ہوں یا دونوں احوال ہوں ،لہٰذایاتو مستثنی میں تاویل کرنی پڑے گی جیسے امام شافعیؒنے تعلیل کی،اور فرمایاکہ تقدیرِ عبارت یہ ہے لاتبیعواالطعام بالطعام طعامامساویا بطعام مساویعنی طعام کی بیع صرف مساوات کی صورت میں حلال ہے ،دوسری تمام صو ر توں میں حرام ہے،لہٰذا اس میں قلیل اور کثیر دونوں داخل ہیں،__یا تو مستثنی منہ میں تاویل کرنی پڑے گی جیسے احناف نے کی ، اور کہا تقدیرِ عبارت یہ ہیںلاتبیعواالطعام بالطعام فی حال من الاحوال الافی حال المساواۃ-طعام کی طعام کے ساتھ بیع کسی حالت میں مت کرو مگر مساوات کی حالت میں،اور عرف میں مبادلہ کی تین صورتیںہیں، (۱)مسا وا ت کے ساتھ(۲)مفاضلہ یعنی کیل میں کمی زیادتی کے ساتھ(۳)مجازفہ کیلی یا وزنی چیز میں اندازہ سے بیچنا۔
ان میں صرف مساوات کی صورت نص سے جائزہوئی ،مفاضلہ اور مجازفہ حرام ہوا،نہی کے تحت داخل ہیں ،اور یہ تینوں صورتیں مقدار کثیر میں ہی ہوسکتی ہیں ، یعنی جو وزن یا کیل کے تحت آتی ہو، اور قلیل مقدار سے نص ساکت ہے،نہ مستثنی منہ میں اس کا ذکر ہے نہ مستثنی میں ،پس قلیل اپنی اصل پر باقی رہے گااوراصل اشیاء میں اباحت ہے، لہٰذا قلیل مقدارمیں کمی بیشی کے ساتھ بیع جائز ہے یہ ربٰو نہیںہے،لہٰذا یہ جو تغیرہوا کہ قلیل نص سے الگ ہوگیاوہ نص کی طرف ہی منسوب ہے یعنی دلالت النص سے ہوا نہ کہ تعلیل سے ہواجیسا کہ آپ کا گمان ہے__ البتہ یہ حسن اتفاق ہے کہ تعلیل بھی نص کے موافق ہے،لہٰذااعتراض صحیح نہ ہوگا۔
وَکَذٰلِکَ جَوَازُ الْاِبْدَالِ فِیْ بَابِ الزَّکٰوۃِ ثَبَتَ بِالنَّصِّ لَا بِالتَّعْلِیْلِ لِاَنَّ الْاَمْرَ بِاِنْجَا زِ مَا وَعَدَ لِلْفُقَرَاءِ رِزْقًالَّھُمْ مِمَّااَوْجَبَ لِنَفْسِہٖ عَلَی الْاَغْنِیَاءِ مِنْ مَالٍ مُسَمًّی لَایَحْتَمِلُہٗ مَعَ اِخْتِلَافِ الْمَوَاعِیْدِ یَتَضَمَّنُ الْاِذْنَ بِا لْاِسْتِبْدَالِ فَصَارَالتَّغْیِیْرُ بِالنَّصِّ مُجَامِعًا لِلتَّعْلِیْلِ لَابِہٖ وَاِنَّمَا التَّعْلِیْلُ لِحُکْمٍ شَرْعِیٍّ وَھُوَصَلَاحُ الْمَحَلِّ