ظہارویمین کو کفارۂ قتل پر قیاس نہیں کیا، اور امام شافعی نے کفارۂ ظہار ویمین کو کفارۂ قتل پر قیاس کرکے ایمان کی شرط لگادی کہ سب کفاروں میں مومن غلام آزاد کرنا ہے، کیونکہ کفارے سب ایک ہی جنس ہیں، اور کتاب اللہ پر زیادتی ان کے نزدیک نسخ نہیںہے، بیان ہے ، اور بیان قیاس سے جائز ہے۔
وَالَّذِیْ یَتَّصِلُ بِالسُّنَنِ اَفْعَالُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَھِیَ اَرْبَعَۃُ اَقْسَامٍ مُبَاحٌ وَمُسْتَحَبٌ وَوَاجِبٌ وَفَرْضٌ وَفِیْھَا قِسْمٌ اٰخَرُ وَھُوَ الزَّلَّۃُ لٰکِنَّہٗ لَیْسَ مِنْ ھٰذَا الْبَابِ فِیْ شَیْئٍ لِاَنَّہٗ لَایَصْلَحُ لِلْاِقْتِدَاءِ وَلَایَخْلُوْا عَنِ الْاِقْتِرَانِ بِبَیَانٍ اَنَّہٗ زَلَّۃٌ۔
ترجمہ:-اور وہ جو متصل ہیں سنن قولیہ کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے افعال ہیں، اور وہ چار قسم پر ہیں، مباح، مستحب ، واجب اور فرض، اور ان افعال میں ایک دوسری قسم بھی ہے، اور وہ زلت (چوک ، لغز ش)ہے، لیکن یہ قسم کسی بھی حکم میں اس باب سے یعنی بابِ اقتدا سے نہیں ہے، اس لئے کہ یہ قسم اقتدا کی صلاحیت نہیں رکھتی ہے، اور یہ قسم اس بات کے بیان کے متصل ہونے سے خالی نہیں ہے کہ یہ زلت ہے۔
------------------------------
تشریح:-مصنفؒ سنن ِ قولیہ کے بیان سے فارغ ہوکر سنن ِفعلیہ کو بیان کررہے ہیں، سنن ِفعلیہ کا درجہ سننِ قولیہ کے بعد ہے، اس لئے اس کو سنن ِ قولیہ کے بعد بیان کیا، افعالِ رسول سے وہ افعال مراد ہیں جو آپﷺ سے بالقصد صادر ہوئے ہوں، حالت ِنوم میں یا سہواً صدور ہوا ہو تو اس کی اقتدا نہ ہوگی، اور نہ وہ فعل حسن وقبح سے متصف ہوگا۔
آپﷺ کے افعال چار طرح کے ہیں،(۱)مباح جیسے کھانا، پینا، لباس وغیرہ (۲)مستحب جیسے تسمیہ فی الوضوء ڈاڑھی کا خلال کرنا، (۳)واجب جیسے سجدۂ سہو (۴)فرض جیسے ، فرائض، نماز، روزہ وغیرہ۔
یہاں یہ شبہ ہوسکتا ہے کہ تمام اصولیین نے افعال کی تین قسمیں، مباح، مستحب اور فرض بیان کی ہیں، واجب کو فرض میں شامل کیا ہے، کیونکہ واجب اس کو کہتے ہیں جس کا ثبوت ایسی دلیل سے ہو جس میں شبہ اور اضطر اب ہو اور آپﷺ کے کسی بھی فعل میں شبہ کا تحقق نہیں ہوسکتا ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ یہ تقسیم ہمارے اعتبار سے ہے نبی علیہ السلام کے اعتبار سے نہیں ہے، اور ہمارے حق میں بعض افعال دلیل ظنی سے ثابت ہیں، لہٰذا ہمارے حق میں واجب متحقق ہوگا۔
مصنفؒ کہتے ہیں کہ ان مذکورہ چارقسموں کے علاوہ ایک قسم اور ہے جس کو زلت کہتے ہیں، یعنی چوک ہوجانا، لغزش ، وہ یہ کہ کسی کام کے کرنے کا ارادہ نہ ہو اور بلاقصد ہوجائے اوروہ اس پر ثابت نہ رہے جیسے راستہ چلتے ہوئے گرپڑا، گرنے کا ارادہ نہ تھا، مگر گرپڑا پھر کھڑا ہوگیا، پڑا نہیں رہا، یہ زلت کہلاتا ہے جیسے موسیٰ علیہ السلام نے گھونسہ مارا ،