زیادتی ہے، اور انکار کیا ہے ہمارے علماء نے غیر محصن کے زنا میں جلاوطن کی زیادتی کو حد بنانے سے، اور طوافِ زیارت میں طہارت کی زیادتی کو شرط بنانے سے، اور کفارہ کے رقبہ میں صفت ِ ایمان کی زیادتی کا خبر واحد یا قیاس سے۔
------------------------------
تشریح:منسوخ کی چوتھی قسم یہ ہے کہ نص پر زیادتی کردی جائے ، اس قسم میں اصل حکم باقی رہتا ہے اور حکم کا وصف منسوخ ہوتا ہے، یہاں زیادتی سے مراد وہ زیادتی ہے جو غیر مستقل ہو جیسے قید یا شرط سے زیادتی کی جائے ، یہ زیادتی اگر چہ صورۃً بیان ہے مگر حقیقت میں ہمارے نزدیک نسخ ہے، اور امام شافعیؒ کے نزدیک یہ زیادتی نسخ نہیں بلکہ بیان ہے۔
ہماری دلیل یہ ہے کہ زیادتی کی وجہ سے اصل مشروع یعنی مزید علیہ بعض حق ہوجائے گا، اس طرح کہ مطلق جب کسی قید کے ساتھ مقید ہوگیا تو مجموعہ دوجز سے مرکب ہوا، ایک مطلق اور مقید ، اور احد الجزئین مجموعہ کا بعض ہے، لہٰذا مطلق بھی مجموعہ کا بعض ہوگا، اور مجموعہ اللہ کا حق ہے تو مطلق اللہ کے حق کا بعض ہوگا، اور اللہ کے حقوق میں بعض کو وجودِ کل کا حکم نہیں ہوتا ہے، لہٰذا اگر کسی نے فجر کی ایک رکعت پڑھی تو دوسری رکعت ملائے بغیر اس کو فجر نہیں کہا جائے گا، اور اللہ کے حقوق میں بعض کو کل کا حکم اس لئے نہیں دیا جاتا کہ اللہ کے حقوق تجزی اور تقسیم کو قبول نہیں کرتے۔
چنانچہ مظاہر جس پر دو ماہ کے روزے واجب تھے، اگر وہ ایک مہینہ کے روزے رکھ کر بیمار ہوگیا پھر باقی ایک مہینہ کے روزوں کے بدلہ تیس مسکینوں کو کھانا کھلادیا تو اس کا کفارہ نہ روزوں سے ادا ہوگا نہ کھانا کھلانے سے، کیونکہ اللہ کے حق میں اس نے بعض حق ادا کیا ، اور بعض کو کل کا حکم نہیں ہے۔
مصنف نے حق اللہ کہہ کر حقوق العباد کو خارج کردیا کیونکہ حقوق العباد میں تجزی ہوتی ہے، مثلاً ایک آدمی نے کسی پر پندرہ سو کا دعوی کیا، اور دوگواہ پیش کئے مگر ایک نے ہزار کی گواہی دی اور دوسرے نے پندرہ سوکی، تو مدعی کے لئے صرف ایک ہزار ثابت ہوں گے، پندرہ سو ثابت نہ ہوں گے۔
بہرحال یہ بات ثابت ہوگئی کہ مطلق قید کے بعد بعض حق ہوگیا، اور جب مطلق بعض حق ہوگیا تو زیادتی معنی کے اعتبار سے نسخ ہوگی، کیونکہ قید کی وجہ سے مطلق کا حکم ختم ہوگیا، اور اس کی مدت پوری ہوگئی، اب حکم مقید ہوگیا، تو یہ قید مطلق کے لئے ناسخ ہوئی، اور مطلق منسوخ ہو ااور زیادتی جب نسخ ہوئی تو ہمارے نزدیک چونکہ کتاب اللہ کا نسخ خبرِ متواتر اور مشہور سے ہوتا ہے، اس لئے کتاب اللہ پر زیادتی بھی خبرِ متواتر یا مشہور سے جائز ہوگی، خبرِ واحد اور قیاس سے زیادتی جائز نہ ہوگی۔
اور امام شافعیؒ کے نزدیک چونکہ یہ زیادتی بیان اور تخصیص ہے اور بیان خبرِ واحد اور قیاس سے بھی جائز ہے، اس