(۲)تلاوت منسو خ ہو حکم منسوخ نہ ہو جیسےالشیخ والشیخۃ اذازنیا فارجموھما نکالا من اللہ، اور ابن مسعود کی قرات فصیام ثلثۃ ایام متتابعات، میں متتابعات کے اضافہ کے ساتھ، ان میں تلاوت منسوخ ہے اور حکم باقی ہے ۔
(۳)حکم منسوخ ہو تلاوت منسوخ نہ ہو جیسے لکم دینکم ولی دین، اسی طرح عدم ِقتال کی آیتیں جو تقریباً ستّر ہیں، آیاتِ قتال سے منسوخ ہیں، مگر تلاوت باقی ہے۔
(۴)حکم کا وصف منسوخ ہو اور اصل منسوخ نہ ہو مثلاً کسی حکم کا عموم منسوخ ہو مگر اصل حکم باقی ہو۔
نسخ کی پہلی قسم بالاتفاق جائز ہے، دوسری اور تیسری قسمیں جمہور کے نزدیک تو جائز ہیں مگر بعض معتزلہ کا اس میں اختلاف ہے۔
جمہور کی دلیل یہ ہے کہ نظمِ قران کے دو حکم ہیں، ایک وہ جو نظم اور لفظ سے متعلق ہے جیسے نماز کا جائز ہونا، قران کامُعْجِزْ ہونا ، دوسرا وہ جو نظم کے معنی سے متعلق ہے جیسے کسی حکم کا فرض ہونا، واجب ہونا حرام ہونا وغیرہ اور نظم ومعنی دونوں مقصود ہیں، لہٰذا دونوں میں مدت اور وقت کے بیان کا احتمال ہوگا تو دونوں میں نسخ بھی ہوگا۔
وَالزِّیَادَۃُ عَلَی النَّصِّ نَسْخٌ عِنْدَنَا خِلَافًا لِلشَّافِعِی لِاَنَّ بِالزِّیَادَۃِ یَصِیْرُ اَصْلُ الْمَشْرُوْعِ بَعْضَ الْحَقِّ وَمَا لِلْبَعْضِ حُکْمُ الْوُجُوْدِ فِیْمَا یَجِبُ حَقًّا لِلّٰہِ تَعَالٰی لِاَنَّہٗ لَایَقْبَلُ الْوَصْفَ بِالتَّجَزِّی حَتّٰی اَنَّ الْمُظَاھِرَ اِذَا مَرِضَ بَعْد مَاصَامَ شَھْرًا فَاَطْعَمَ ثَلٰثِیْنَ مِسْکِیْنًا لَمْ یَجُزْہٗ فَکَانَتِ الزِّیَادَۃُ نَسْخًا مِنْ حَیْثُ الْمَعْنٰی وَلِھٰذَا لَمْ یَجْعَلْ عُلَمَاءُ نَاؒ قِرَائَۃَ الْفَاتِحَۃِ رُکْنًا فِی الصَّلٰوۃِ بِخَبَرِ الْوَاحِدِ لِاَنَّہٗ زِیَّادَۃٌ عَلَی النَّصِّ وَاَبَوْا زِیَادَۃَ النَّفْیِ حَدَّا فِیْ زِنَا الْبِکْرِوَزِیَادَۃَ الطَّھَارَۃِ شَرْطًا فِیْ طَوَافِ الزِّیَارَۃِ وَزِیَادَۃَ صِفَۃِ الْاِیْمَانِ فِیْ رَقَبَۃِ الْکَفَّارَۃِ بِخَبَرَ الْوَاحِدِ اَوِالْقِیَاسِ۔
ترجمہ:اور نص پر زیادتی ہمارے نزدیک نسخ ہے، برخلاف امام شافعیؒ کے ، اس لئے کہ زیادتی کی وجہ سے اصل مشروع (مزیدعلیہ) بعض حق ہوجائے گا، اور بعض کے لئے وجود کا حکم نہیں ہوتا ہے اس حکم میں جو اللہ کا حق بنکر واجب ہوتا ہے، اس لئے کہ اللہ کا حق تجزی کے وصف کو قبول نہیں کرتا ہے، یہانتک کہ ظہار کرنے والا جب ایک مہینہ کے روزے رکھنے کے بعد بیمار ہوگیا، پھر اس نے تیس مسکینوں کو کھانا کھلایا تو اس کو کافی نہ ہوگا تو زیادتی معنی کے اعتبار سے نسخ ہوگی، اور اسی وجہ سے ہمارے علماء نے فاتحہ کی قرأت کو نماز میں رکن قرار نہیں دیا خبر واحد سے، کیونکہ یہ نص پر