مفصولا بھی صحیح ہے، جیسے ولا طائر یطیر اور فسجد الملئکۃ میں بیان موصولاً ہے اور اقیموا الصلوۃ واٰتوا الزکوۃ اور ثلثۃ قروء میں حدیث کا بیان مفصولاً ہے۔
بہرحال احناف وشوافع کے نزدیک بیانِ تقریر اور بیانِ تفسیر دونوں میں بیان موصولاً اور مفصولاً دونوں طرح درست ہے، اکثر معتزلہ ، حنابلہ، اور بعض شوافع کے نزدیک بیانِ تفسیر کا مفصولاً واقع ہونا جائز نہیں ہے۔
فَاَمَّا بَیَانُ التَّغْیِیْرِ نَحْوُ التَّعْلِیْقِ وَالْاِسْتِثْنَاءِ فَاِنَّمَا یَصِحُّ بِشَرْط الْوَصْلِ وَاخُتُلِفَ فِیْ خُصُوْصِ الْعُمُوْمِ فَعِنْدَنَا لَایَقَعُ مُتَرَاخِیًا وَعِنْدَالشَّافِعِیْ یَجُوْزُ فِیْہِ التَّرَاخِیْ وَھٰذَا بِنَاءٌ عَلٰی اَنَّ الْعُمُوْمَ مِثْلُ الْخُصُوصِ عِنْدَنَا فِیْ اِیْجَابِ الْحُکْمِ قَطْعًا وَبَعْدَ الْخُصُوْصِ لاَیَبْقَی الْقَطْعُ فَکَانَ تَغَیُّرًا مِنَ الْقَطْعِ اِلَی الْاِحْتِمَالِ فَتَقَیَّدَ بِشَرْطِ الْوَصْلِ وَعَلٰے ھٰذَا قَالَ عُلَمَا ؤُنَا فِیْمَنْ اَوْصٰی بِخَاتَمِہٖ لِاِنْسَانٍ وَبِالْفَصِّ مِنْہُ لِاٰخَرَ مَوْصُوْلًا اِنَّ الثَّانِیْ یَکُوْنُ خُصُوْصًا لِلْاَوَّلِ وَیَکُوْنُ الْفَصُّ لِلثَّانِیْ وَاِنْ فَصَلَ لَمْ یَکُنْ خُصُوْصًا لِلْاَوَّلِ بَلْ صَارَ مُعَارِضًا فَیَکُوْنُ الْفَصُّ بَیْنَھُمَا
ترجمہ:-اور بہرحال بیانِ تغییر جیسے تعلیق اور استثناء تو وہ صحیح ہوگا وصل کی شرط کے ساتھ، اور عام کی تخصیص کے بارے میں اختلاف کیا گیا ہے، پس ہمارے نزدیک یہ تخصیص تراخی کے ساتھ واقع نہ ہوگی، اور امام شافعیؒ کے نزدیک اس میں تراخی جائز ہے، اور یہ اختلاف اس پر مبنی ہے کہ ہمارے نزدیک حکم کو قطعی طریقہ پر واجب کرنے میں عام خاص کی طرح ہے، اور تخصیص کے بعد (عام میں) قطعیت باقی نہیں رہتی ہے، پس عام کو خاص کرنا قطعیت سے احتمال (ظنیت ) کی طرف تغییر ہوگا تو یہ تخصیص وصل کی شرط کے ساتھ مقید ہوگی۔
اور اسی بنیاد پر ہمارے علماء نے اس شخص کے بارے میں کہا جس نے اپنی انگوٹھی کی وصیت ایک انسان کے لئے کی، اور اس کے نگینہ کی وصیت متصلاً دوسرے انسان کے لئے کی تو دوسری وصیت پہلی وصیت کے لئے تخصیص ہوگی، اور نگینہ دوسرے انسان کے لئے ہوگا، اور اگر دوسری وصیت مفصولاً کی ہے تو دوسری وصیت پہلی وصیت کے لئے تخصیص نہ ہوگی، بلکہ معارض ہوگی تو نگینہ دونوں کے درمیان مشترک ہوگا۔
------------------------------
تشریح:- تیسری قسم بیانِ تغییر ہے، بیان ِتغییر اس بیان کو کہتے ہیں جو ماقبل والے کلام کو بدل دے جیسے تعلیق اور استثناء تعلیق کی مثال جیسے کسی نے اپنی بیوی سے کہا انت طالق ان دخلت الدار، تعلیق یعنی ان دخلت الدار نے