بَیَانُ الْمُجْمَلِ وَالْمُشْتَرَکِ۔
ترجمہ:-یہ فصل ہے، اور یہ حجتیں اپنی تمام اقسام کے ساتھ بیان کا احتمال رکھتی ہیں، اور یہ بیان کا باب ہے، اور بیان پانچ قسم پر ہے، بیانِ تقریر، بیانِ تفسیر، بیانِ تغییر، بیانِ تبدیل، بیانِ ضرورت، بہرحال بیانِ تقریر پس وہ کلام کو مؤکد کرنا ہے ایسی چیز کے ساتھ جو مجاز یا خصوص کے احتمال کو ختم کردے ،پس بیان ِتقریر صحیح ہوتا ہے موصولاً اور مفصولاً بالاتفاق، اور اسی طرح بیانِ تفسیر اور وہ مجمل اور مشترک کابیان ہے۔
تشریح:-مصنفؒ فرماتے ہیں کہ یہ مذکورہ حجتیں یعنی کتاب وسنت ان کی جتنی اقسام گذری ہیں ، ان سب میں بیان کا احتمال ہوتا ہے، اس لئے مصنف ؒ بیان کا باب شروع کررہے ہیں۔
------------------------------
بیان کے معنی ظاہر کرنا، اور ظاہر ہونا، یہ لازم ومتعدی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے، ارشاد باری تعالی ہے،’’علمہ البیان‘‘ ، اللہ تعالیٰ نے اظہار مافی الضمیر کا طریقہ سکھایا، اور ’’بان لی ھذا الکلام‘‘ میرے سامنے یہ کلام ظاہر ہوا، واضح ہوا۔
اصطلاح میں بیان کہتے ہیں مخاطب کے سامنے مراد ظاہر کرنے یا ظاہر ہونے کو، بیان کی پانچ قسمیں ہیں، (۱)بیانِ تقریر (۲)بیانِ تفسیر (۳)بیانِ تغییر (۴)بیانِ تبدیل (۵)بیانِ ضرورت۔
بیانِ تقریر کہتے ہیں کلام کو اس طرح مؤکد کرنا جس سے مجاز اور خصوص کا احتمال ختم ہوجائے ، اس کی مثال ولاطائر یطیر بجناحیہ‘‘ طائر کہتے ہیں پرندہ کو، اور مجازاً تیز رفتار کو بھی طائر کہتے ہیں، اسی لئے ڈاکیہ کو بھی طائر کہا جاتا ہے، یہاں مجاز کا بھی احتمال تھا مگر بجناحیہ سے یہ احتمال ختم ہوگیا، اور پرندہ کا معنی متعین ہوگئے ۔
اسی طرح فسجد الملئکۃ،میں ملائکہ جمع ہونے کی وجہ سے تمام ملائکہ کو شامل ہے مگر یہ احتمال ہے کہ سب فرشتے مراد نہ ہو، کیونکہ جمع بول کر کبھی بعض افراد بھی مراد لئے جاتے ہیں مگر کلھم کی قید سے تخصیص کا احتمال ختم ہوگیا۔
بیان ِتفسیر اس بیان کو کہتے ہیں جس سے کلام کا خفا دور ہوجائے جیسے اقیموا الصلوۃ واتوا الزکوۃ، یہ آیت مجمل ہے، اس میں صرف نماز وزکوۃ کا حکم دیا گیا ہے، نماز کا طریقہ، ترکیب ، اور زکوۃ کی مقدار وغیرہ بیان نہیں ہوئی ہیں، لیکن رسول اللہ ﷺنے اپنے اقوال وافعال سے اس کو واضح کردیا،__ اسی طرح ثلثۃ قروء میں مشترک کی وجہ سے خفاء تھا مگر آپﷺ کے ارشاد طلاق الامۃ تطلیقتان وعدتھا حیضتان نے واضح کردیا کہ یہاں قروء سے مراد حیض ہے، تو حدیث کا یہ بیان بیانِ تفسیر کہلائے گا۔
مصنفؒ فرماتے ہیں کہ بیان ِتقریر اور بیانِ تفسیر دونوں میں مشترکہ ضابطہ یہ ہے کہ یہ بیان موصولاً بھی صحیح ہے اور