ھٰذَاالْاَصْلِ اَنَّ التَّحْرِیْمَ لَمَّالَمْ یَکُنْ مَقْصُوْدًا بِالْاَمْرِ لَمْ یُعْتَبَرْاِلَّامِنْ حَیْثُ اَنَّہٗ یُفَوِّتُ الْاَمْرَفَاِذَالَمْ یُفَوِّتْہُ کَانَ مَکْرُوْھًا کَالْاَمْرِبِالْقِیَامِ لَیْسَ بِنَھْیٍ عَنِ الْقُعُوْدِ قَصْدًا حَتّٰی اِذَا قَعَدَ ثُمَّ قَامَ لَاتَفْسُدُ صَلٰوتُہٗ وَلٰکِنَّہٗ یَکْرَہُ وَعَلٰی ھٰذَا الْقَوْلِ یَحْتَمِلُ اَنْ یَّکُوْنَ النَّھْیُ مُقْتَضِیًا فِیْ ضِدِّہٖ اِثْبَاتَ سُنَّۃٍ تَکُوْنُ فِی الْقُوَّۃِ کَالْوَاجِبِ وَلِھٰذَا قُلْنَا اِنَّ الْمُجْرِمَ لَمَّا نُھِیَ عَنْ لُبْسِ الْمَخَیْطِ کَانَ مِنَ السُّنَّۃِ لُبْسُ الْاِزَارِ وَالرِّدَاءِ۔
ترجمہ:-یہ فصل امر اور نہی کے حکم میں اس چیز کی ضد کے بیان میں ہے جس کی طرف یہ دونوں منسوب ہیں، اس میں علماء کا اختلاف ہے، اور مختار قول ہمارے نزدیک یہ ہے کہ کسی چیز کا امر کرنا اس کی ضد کا تقاضا کرتا ہے ،نہ یہ کہ امربالشی اس کی ضد کی کراہت کو واجب کرنے والا ہے یا اس پر دلیل ہے، اس لئے کہ امر بالشیٔ اپنے غیر سے ساکت ہے، لیکن امر سے ضد کی حرمت ثابت ہوتی ہے، آمر کے حکم کی ضرورت کی وجہ سے، اور جو چیز اس طریقہ پر ثابت ہو تو وہ اقتضاکے طریقہ پر ثابت ہوتی ہے نہ کہ دلالت کے طریقہ پر۔
اور اس اصل کا فائدہ یہ ہے کہ تحریم جب امر سے مقصود نہیں ہے ،تو وہ تحریم معتبر نہ ہوگی مگر اس حیثیت سے کہ وہ امر(ماموربہ) کو فوت کردے، پس جب ضد مامور بہ کو فوت نہ کرے تو ضد مکروہ ہوگی جیسے رکعتِ ثانیہ سے قیام کاامر قعود سے قصدًا نہی نہیں ہے، یہاں تک کہ جب بیٹھ گیا پھر کھڑا ہوا تو اس کی نماز فاسد نہ ہوگی، لیکن مکروہ ہوگی، اور اسی قول کی بنا پر احتمال ہے کہ نہی تقاضا کرنے والی ہواپنی ضد میں سنت کو ثابت کرنے کا، جو سنت قوت میں واجب کے مانندہو، اور اسی وجہ سے ہم نے کہا کہ مُحْرِم کو جب سلاہواکپڑا پہننے سے منع کیا گیا تو تہ بند اور چادر کا پہننا سنت ہوگا۔
------------------------------
تشریح:-ماقبل میں امرونہی کا حکم بیان کردیا کہ امر سے وجوب ثابت ہوتا ہے اور نہی سے حرمت ثابت ہوتی ہے، اس فصل میں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ صیغۂ امر اپنی ضد میں کیاثابت کرے گا، اسی طرح صیغہ نہی اپنی ضد میں کیا ثابت کرے گا__ جیسے کسی نے کہا’’ قُمْ‘‘ کھڑا ہو تو قیام کا وجوب ثابت ہوا، لیکن اس کی ضد قعود ہے، تو امر سے اس ضد میں کیا حکم ثابت ہوگا، حرمت یاکراہت؟ اسی طرح کہا لاتقم تو نہی سے اس کی ضد یعنی قعود میں وجوب ثابت ہوگا یا سنت یا ندب۔
مصنفؒ فرماتے ہیں کہ اس میں علماء کا اختلاف ہے، ہمارا مذہب مختار اس میں یہ ہے کہ امربالشی اس کی ضد میں مکروہ تحریمی ہونے کا تقاضا کرتا ہے، لہٰذا قیام کا امر کیا گیا تو اس کی ضد قعود مکروہ تحریمی ہوگی، یہ ضد کی کراہت جو ثابت ہورہی ہے اس کو امر واجب نہیں کرتا ہے نہ امر اس پر دلالت کرتا ہے، کیونکہ امر تو ضد کے بارے میں ساکت