ترجمہ:-اور بہر حال حج پس اس میں قدرتِ مُمَکِّنَہ شرط ہے یعنی وہ سفر جس کے لوگ عادی ہیں سواری اور توشہ کے ساتھ ، اور یسر واقع نہیں ہوتا ہے مگر بہت سے خادموں کے ساتھ اور بہت سے مددگاروں اور سواریوں کے ساتھ، اور یہ بالاجماع شرط نہیں ہے، پس اسی وجہ سے یہ (قدرتِ ممکّنہ) دوام واجب کے لئے شرط نہیں ہے، اور اسی طرح صدقۂ فطر یسر کی صفت کے ساتھ واجب نہیں ہوا بلکہ قدرتِ (ممکّنہ) کی شرط کے ساتھ اور وہ غنا (مالداری) ہے ،تاکہ ہوجائے وہ شخص جو غنا کے ساتھ موصوف ہے غنی کرنے کا اہل ، کیا تو نہیں دیکھتا ہے کہ صدقۂ فطر واجب ہوجاتا ہے کام کاج کے کپڑوںسے ،حالانکہ ان کے ذریعہ یسر واقع نہیں ہوتا ہے ،اس لئے کہ کام کاج کے کپڑے نامی نہیں ہیں ، پس نہیں ہوگا بقاء ِ واجب محتاج، وجوب کی شرط کے دوام کی طرف ۔
------------------------------
تشریح:-مصنفؒ قدرتِ ممکّنہ اور قدرتِ میسرہ کے درمیان فرق کو مزید واضح کررہے ہیں، فرماتے ہیں کہ حج قدرتِ ممکّنہ کے ساتھ واجب ہے، یعنی ادنی قدرت حاصل ہوجائے، سواری اور توشہ پر قدرت سے حج واجب ہوجائے گا، یہ قدرت ممکّنہ ہے، ورنہ یسر تو اس میں یہ ہے کہ ساتھ میں خدام ہوں، مددگار ہوں، سواریاں ہوں وغیرہ حالانکہ بالاجماع یہ شرط نہیں ہے، معلوم ہوا کہ قدرتِ میسرہ سے حج کا وجوب نہیںہے، بلکہ ممکّنہ سے ہے، اسی لئے بقاء واجب کے لئے قدرت کا دوام شرط نہیں ہے ،لہٰذا حج واجب ہوجانے کے بعد مال ہلاک ہوگیا تو حج ساقط نہ ہوگا، اور نہ کرسکا تو گنہگار ہوگا۔
اسی طرح صدقۂ فطر بھی قدرتِ میسرہ کے ساتھ نہیں ہے، بلکہ قدرتِ ممکّنہ کے ساتھ واجب ہے، اسی لئے اس میں غنا یعنی مالدار ہونا ،اور صاحب نصاب ہونا شرط ہے، مال نامی ہونا اور سال گذرنا شرط نہیں، یہ قدرتِ ممکّنہ ہے، جس سے ادنی قدرت حاصل ہوجاتی ہے ورنہ یسر تو اس میں مالِ نامی اور حولانِ حول سے ہوتا ہے، حالانکہ یہ شرط نہیں ہے، اگر کوئی عید کی رات میں صبح صادق سے پہلے نصاب کا مالک ہوگیا تو صدقۂ فطر واجب ہوجائے گا۔
اور غنا کی شرط اس لئے لگائی گئی کہ صدقہ ٔفطر کا مقصودفقیر کو غنی کرنا ہے،اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ خود غنی ہو، لہٰذا غنا کی شرط لگادی۔
اگر کوئی سوال کرے کہ غنا (یعنی نصاب کا مالک ہونا) جب شرط قرار دیا تو یہ قدرتِ مُیسرہ ہوئی اس لئے کہ قدرتِ ممکّنہ تو یہ ہے کہ ایک دن سے زائد روزی کامالک ہو، اگر صدقۂ فطر میں قدرتِ ممکّنہ شرط ہے تو ایک دن سے زائد روزی پر صدقۂ فطر ہونا چاہیے ،نصاب کی شرط نہ ہونا چاہیے ، جیسے امام شافعیؒ کے نزدیک یہی حکم ہے ۔
اس کا جواب یہ ہے کہ ایک دن سے زائد روزی مراد لینے کی صورت میں قلب ِموضوع لازم آتا ہے، کہ آج تو ایک دن سے زائد روزی پر صدقہ واجب ہوگیا اب وہ خالی ہاتھ ہوگیا، دوسرے دن محتاج ہونے کی وجہ سے مانگنے پر