تحفہ رمضان - فضائل و مسائل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
پڑھتے ہیں۔ حضرت والا نے سورہ اقراء سے پہلے بسم اللہ میں جہر فرمایا (کیوں کہ) مسئلہ یہ ہے کہ پورے کلام اللہ میں ایک دفعہ جہر سے بسم اللہ پڑھنی چاہئے خواہ کسی سورۃ میں ہو۔ ) عام دستور یہ ہے کہ سورۃ اخلاص کو تین بار پڑھتے ہیں حضرت والا نے اس کو ایک بار ہی پڑھا۔ * جس روز ختم ہوا دوسرے دنوں کی بہ نسبت نہ روشنی میں اضافہ تھا‘ نہ مٹھائی منگائی گئی‘ جیسے اور روز پڑھ کر چلے جاتے تھے اس دن بھی چلے گئے۔ + ایک دستور یہ کہ جس روز ختم ہوتا ہے تو حافظ کے سامنے پنساری کی دکان لا کر رکھ دیتے ہیں یعنی اجوائن وغیرہ سامان اور پڑیاں‘ پانی دم کرنے کے لئے رکھ دیتے ہیں حافظ صاحب اس میں چھو کر دیتے ہیںیہاںیہ سب کچھ نہیں تھا بس مسنون طریقہ کے مطابق عمل تھا شریعت مطہرہ نے سب کاموں میں آسانی رکھی ہے ہم لوگ خود ہی دقتیں بڑھا لیتے ہیں اگر اس طریقہ سے تراویح کریں تو کتنی آسانی ہو۔ , ختم ہونے کے بعد تین روز اور تراویح پڑھیں‘ پہلے دن سورئہ والضحیٰ سے آخر تک تراویح میں قرآن پڑھا۔ دوسرے دن الم تر کیف سے اخیر تک پھر اسی کو لوٹا کر اخیر تک پڑھا۔ تیسرے دن عم یتساء لون کا تقریباً نصف پارہ پڑھا۔ [حسن العزیز] اجرت دے کر قرآن سننا ایک بدعت تراویح میں استیجار علی العبادۃ (عبادت پر اجرت لینے کی ہے) یعنی حافظ صاحب سے اجرت دے کر قرآن پڑھوایا جاتا ہے اور استیجار علی العبادۃ (یعنی عبادت پر اجرت لینا) حرام ہے۔ (والا ستیجار علی مجردۃ التلاوۃ لم یقل بہ احد من الائمۃ و انما تنازعوا فی الاستیجار علی التعلیم)بعض لوگ یہ کہہ دیتے ہیںکہ یہ اجرت نہیں کیونکہ کہ ہم کوئی مقدار مقرر نہیںکرتے جو ہمارے مقدر میں پہنچتا ہے وہ لے لیتے ہیں۔ سبحان اللہ اَلْمَعْرُوْفُ کَالْمَشْرُوْطُ جو بات مشہور ہوتی ہے اس میں ٹھہرانے کی کیا ضرورت ہوتی ہے۔ (مشہور تو خود ہی مشروط ہوتاہے) اگر کسی طرح حافظ صاحب کو معلوم ہو جائے کہ یہاں سنانے میں کچھ بھی نہ ملے گا تو درمیان رمضان ہی میں حافظ صاحب چھوڑ کر بیٹھ رہیں گے اس سے ثابت ہوا کہ حافظ صاحب کو مقصود اجرت ہی ہے‘ ختم کرنے سے بحث نہیں۔ [تطہیر رمضان] قرآن سنانے کی اجرت لینا دینا دونوں ناجائز ہیں بعض حفاظ کی عادت ہے کہ اجرت لے کر قرآن مجید سناتے ہیں طاعت پر اجرت لینا حرام ہے۔ اسی طرح دینا بھی حرام ہے بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے پہلے سے مقرر نہیں کیا اس لئے یہ معاوضہ نہیں ہے اس کا جواب یہ ہے کہ گو پہلے سے نہیں ٹھہرایا لیکن نیت تو دونوں کی یہی ہے اور نیت بھی محض خیال کے درجہ میںنہیں بلکہ عزم (یعنی پختہ ارادہ) کے درجہ میں ہوتی ہے اگر کسی طرح یہ معلوم ہو جائے کہ یہاں کچھ وصول نہ ہو گا تو ہرگز ہرگز وہاں نہ سنائیں گے اور فقہ کا قاعدہ ہے کہ معروف مثل مشروط کے ہے جب اس کا رواج ہو گیا اور دونوں کی نیت یہی ہے تو بلا شک وہ معاوضہ ہے۔ [اصلاح الرسوم]