تحفہ رمضان - فضائل و مسائل - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مہینہ تک ہر دن برابر کھانے پینے اور جماع کرنے سے نفس کو باز رکھنے کے ساتھ روزہ کا انضباط کیا جائے کیونکہ ایک دن سے کم مقدار کا مقرر کرنا تو ایسا ہے جیسا کہ دوپہر کے کھانے کو کچھ دیر کرکے کھانا اور اگر رات کو ان امور کے ترک کرنے کا حکم دیا جاتا تو لوگ اس کے عادی نہیں ہوتے اس کی وجہ سے ان کو کچھ پرواہ نہ ہوتی اور ہفتہ اور دو ہفتہ ایسی قلیل مقدار ہے کہ جس کا نفس پرچنداں اثر نہیںہوتا۔ اور دو مہینے کی ایسی مقدار ہے کہ اس میں آنکھیں گڑ جاتیں اور نفس تھک کر رہ جاتا۔ ان امور سے روزہ کے لیے یہ بات ضروری ہوئی کہ طلوع فجر سے غروب آفتاب تک دن کا انضباط کیا جائے کیونکہ عرب اسی کو دن شمار کرتے ہیں۔ روزہ کے وقت میں اعتدال چونکہ روزہ تمام قسم کے نفسانی زہروں کے دفع کرنے کے واسطے ایک طرح کا تریاق ہے اور اس میں طبیعت کو تکلیف بھی ہوتی ہے۔ لہٰذا بقدر ضرورت اس کی ایک معین مقدار ہونی چاہئے جو کہ نہ اتنی کم ہو جس سے کچھ فائدہ ہی نہ ہو اور نہ اس قدر افراط (زیادتی) کر دی جائے کہ اس سے اعضاء میںضعف (کمزوری) آ جائے اور دلی فرحت جاتی رہے اور نفس کمزور ہو جائے اور انسان بالآخر اس محنت سے قبر ہی میں جلدی نہ چلا جائے اور یہ معتدل مقدار وہی ہے جو مشروع ہوئی ہے۔ کھانے پینے میں کمی کے دو طریقے پھر کھانے پینے میں کمی کرنے کے دو طریقے ہیں ایک تو یہ کہ مقدار میں تھوڑا سا استعمال کرے یہ طریقہ تو عام قانون کے تحت میں بمشکل آ سکتا ہے اس لیے کہ لوگوں کے مختلف درجے ہیں کوئی تھوڑا کھاتا ہے کوئی اس سے زیادہ کھاتا ہے اور جتنے طعام سے ایک شخص سیر ہو جاتا ہے دوسرا بھوکا رہتا ہے سو اس میں انضباط نہ ہوتا اور ہر شخص بہت کھا کر کہتا کہ میں نے اپنی بھوک سے کم کھایا ہے۔ دوسرا طریق یہ ہے کہ کھانے کے درمیان جو فاصلہ ہوتا ہے وہ معمول سے زیادہ ہو یہی طریقہ شریعت میں معتبر ہے کیونکہ تمام صحیح المزاج آدمیوں کا اس پر اتفاق ہے۔ چنانچہ لوگ عام طور پر صبح و شام دو مرتبہ کھاتے ہیں یا دن رات میں ایک ہی بار کھاتے ہیں‘ باقی یہ نہیں ہو سکتا کہ روزانہ لوگوں کو کم کھانے کی تکلیف دی جائے مثلاً کہا جائے کہ تم لوگ اس قدرکھایا کرو کہ حیوانیت مغلوب رہے ایسا حکم دینا موضوع شریعت کے خلاف ہے مثل مشہور ہے کہ جو بھیڑیئے کو چرواہا بنائے وہ خود ظالم ہے۔ ہاں غیر واجبات میں ایسا کرنا مناسب نہیں۔ پھر یہ بھی لازم ہے کہ وہ فاصلہ اتنی دیر کا نہ ہو کہ اس سے نقصان پہنچے اور قوت کا استیصال ہو جائے مثلاً تین رات دن برابر بھوکا رہنے کا حکم ہوتا اس لیے کہ یہ موضوع شریعت کے خلاف ہے اور ہر ایک کو اس کی تکلیف نہیں دی جا سکتی۔ اور یہ بھی ہونا چاہئے کہ بھوکے پیاسے رہنے کے لیے بار بار کی بھی قید ہوتا کہ ریاضت اور اطاعت کا مادہ پیدا ہو ورنہ ایک بار بھوکے رہنے سے خواہ وہ کیسی ہی قوی اور سخت بھوک ہو کیا فائدہ ہو گا۔ ان مقدمات کے تسلیم کرنے پر ماننا پڑے گا کہ روزہ پورے دن بھر کا کامل ایک مہینہ تک ہونا چاہئے کیونکہ دن بھر سے کم تو ایسا ہے کہ دن کا کھانا ذرا تاخیر کرکے کھایا جائے۔ اور اکثر لوگوں کی عادت بھی ہوتی ہے کہ رات کے کھانے کی پرواہ بھی نہیں کرتے اور